ممبئی: بالی ووڈ میں بپی لہری ان موسیقاروں میں شمار کیے جاتے ہیں، جنہوں نے فلمی موسیقی آلات کے استعمال کے ساتھ فلمی موسیقی میں مغربی موسیقی کو ملا کر ’ڈسکو تھیک‘ کی ایک نئی صنف تیار کی۔
اپنے اس نئے تجربے کی وجہ سے بپی لہڑی کو اپنے کیرئیر کے ابتدائی دور میں کافی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا، لیکن بعد میں ان کے میوزک کو شائقین نے بے حد سراہا اور وہ فلم انڈسٹری میں ڈسکو کنگ کے نام سے مشہور ہوئے۔
بپی لہری کو بالی ووڈ کا راک اسٹار کہا جاتا تھا ان کی پیدائش 27 نومبر 1952 کو کولکتہ میں ہوئی۔ ان کا حقیقی نام آلوکیش لہری تھا، وہ بچپن سے ہی موسیقی کی طرف مائل تھے۔ان کے والد اپریش لہری بنگالی گلوکار تھے، جب کہ والدہ ونسری لہری ایک موسیقار اور گلوکارہ تھیں ۔ والدین نے ان کے موسیقی کی جانب بڑھتے رجحان کو دیکھتے ہوئے انہیں اس راستے پر چلنے کی ترغیب دی۔
انہوں نے تین سال کی عُمر میں ہی طبلہ بجانا شروع کر دِیا تھا۔ اس دوران انہوں نے اپنے والدین سے موسیقی کی ابتدائی تعلیم بھی حاصل کی۔بپی لہڑی نے بطور موسیقار اپنے کیرئیر کا آغاز 1972 میں ریلیز ہونے والی بنگالی فلم ’دادو‘سے کیا، لیکن یہ فلم باکس آفس پر ناکام رہی۔ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے ممبئی کا رخ کیا۔سال 1973 میں ریلیز فلم ’ننھا شکاری‘ بطور موسیقار ان کے کیریئر کی پہلی ہندی فلم تھی، لیکن بدقسمتی سے یہ فلم بھی ٹکٹ کھڑکی پر ناکام ہوگئی۔
بپی لہری کی قسمت کا ستارہ سال 1975 میں فلم ’زخمی‘ سے چمکا۔اس فلم میں سنیل دت، آشا پاریکھ، رینا رائے اور راکیش روشن نے مرکزی کردار ادا کیے تھے، جس میں’ آو تمھے چاند پہ لے جائے ‘ اور ’جلتا ہے جیا میرا بھیگی بھیگی راتوں میں‘ جیسے نغمے مقبول ہوئے۔ آج بھی ہولی کے موقع پر ’زخمی دلوں کا بدلہ چکانے‘ جیسا نغمہ اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے۔
سال 1976 میں بپی لہری کی میوزک ڈائریکشن میں بنی ایک اور سپرہٹ فلم ’چلتے چلتے‘ ریلیز ہوئی۔فلم میں کشور کمار کی آواز میں گانا ’چلتے چلتے میری یہ گیت یاد رکھنا‘ آج بھی شائقین میں اپنی انمٹ شناخت بنائے ہوئے ہے۔فلم زخمی اور چلتے چلتے کی کامیابی کے بعد بپی لہڑی بطور موسیقار اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔