حیدرآباد:وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمیعت علماء ہند و دیگر مسلم و ملی تنظیموں کی جانب سے جے پی سی کو آن لائن مخالفتی پیغام روانہ کرنے کی جو مہم چلائی گئی اُسے پوری طرح کامیاب نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی بڑی وجہ ہے مسلمانوں کی جانب سے اتنی کم تعداد میں پیغام روانہ کیا جانا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کے مسلمانوں کو وقف ترمیمی بل کے مضر اثرات پتہ نہیں چل پائے یا پھر مسلمانوں کی اکثریت وقف بورڈ کی کارکردگی سے ہی ناواقف ہے؟
حالانکہ مسلم تنظیمیں اس بات سے واقف تھیں کہ وقف ترمیمی بل سے متعلق جے پی سی نے مسلمانوں نہیں بلکہ عوام کی رائے طلب کی تھی۔ عوام یعنی مسلمانوں کے علاوہ ملک کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کی رائے طلب کی گئی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ برابری کا میدان ہی نہیں تھا کیونکہ مسلمان ملک کی 1.4 بلین آبادی کے چھٹے حصے سے بھی کم ہیں اور ہندوؤں کے مقابلے میں ان کا تناسب کافی کم ہے۔ اس لیے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جے پی سی کی جنگ کے ایگزٹ پولز پہلے ہی ہندوؤں کی جیت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ کچھ مقامی تنظیموں کے سروے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 10 میں سے 9 لوگ وقف ترمیمی بل کی حمایت کر رہے تھے۔
تو کیا مسلمانوں کو سب سے پہلے جے پی سی کی اس چال کی مخالفت نہیں کرنا چاہیئے تھا جس کا جے پی سی نے ہتھیار کی طرح استعمال کیا؟ کیا یہ بات واضح نہیں تھی کہ وقف شریعت کے تحت ایک غیر منقطع خیراتی وقف ہے، ایک خالصتاً اسلامی ادارہ ہے اور اس کا اسلام اور مسلمانوں کے علاوہ کسی مذہب یا برادری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہٰذا اس میں کسی بھی طرح کی تبدیلی لانے یا ترمیم سے پہلے صرف اور صرف مسلمانوں سے مشورہ کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن جے پی سی نے بظاہر کھیل کے اپنے اصول طے کیے اور بڑی چالاکی سے ہندؤوں کو بھی اس کی اپیل کے جواب دہندگان کے طور پر شامل کر لیا۔