لکھنؤ: جمعیۃ علماء ہند نے یوپی حکومت کے اس حالیہ حکم کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے جس میں ہدایت کی گئی ہے کہ غیر تسلیم شدہ مدارس کے تمام طلبہ اور سرکاری امداد یافتہ مدارس میں پڑھنے والے غیر مسلم طلبہ کو سرکاری اسکولوں میں منتقل کیا جائے۔ غور طلب ہے کہ مسلم تنظیم نے اس حکم کو غیر آئینی قرار دیا۔
اتر پردیش کے اس وقت کے چیف سکریٹری، درگا شنکر مشرا نے 26 جون کو ایک حکم نامہ ریاست کے تمام ضلع مجسٹریٹس کو جاری کیا گیا۔ جس میں 7 جون کو نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) کے ایک خط کا حوالہ دیا۔ خط میں ہدایت کی گئی کہ سرکاری مالی اعانت سے چلنے والے مدارس میں زیر تعلیم تمام غیر مسلم طلبہ کو بنیادی تعلیمی کونسل کے اسکولوں میں داخلہ دیا جائے تاکہ انہیں باقاعدہ تعلیم فراہم کی جا سکے۔
26 جون کو جاری کردہ خط میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ریاست کے ایسے تمام مدارس میں پڑھنے والے تمام بچوں کو، جنہیں اتر پردیش مدرسہ ایجوکیشن کونسل نے تسلیم نہیں کیا ہے، انہیں بھی کونسل کے اسکولوں میں داخلہ دیا جائے۔ اس میں کہا گیا کہ پورے عمل کو نافذ کرنے کے لیے ضلع مجسٹریٹس کے ذریعے ضلعی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جانی چاہئیں۔ دریں اثنا، حکومتی حکم نامے کو غیر آئینی اور اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے، جمعیۃ علماء ہند نے اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعرات کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے اتر پردیش حکومت کے چیف سکریٹری، نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس، ایڈیشنل چیف سیکریٹری/ پرنسپل سیکریٹری، کو ایک خط لکھا ہے۔ جس میں اقلیتی بہبود و وقف اترپردیش اور ڈائرکٹر اقلیتی بہبود یوپی پر غیر آئینی کارروائی سے باز رہنے کی اپیل کی۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے قومی کمیشن (این سی پی سی آر) کے خط و کتابت کی بنیاد پر، یوپی حکومت نے 26 جون 2024 کو ہدایات جاری کی ہیں کہ امداد یافتہ اور تسلیم شدہ مدارس میں پڑھنے والے غیر مسلم طلبہ کو الگ کر دیا جائے اور انہیں سرکاری اسکولوں میں داخل کیا جائے۔ اسی طرح غیر تسلیم شدہ مدارس کے تمام طلبہ کو جدید تعلیم کے لیے زبردستی سرکاری پرائمری اسکولوں میں داخل کیا جانا چاہیے۔
مولانا مدنی نے مزید کہا کہ یہ حکم ریاست کے ہزاروں آزاد مدارس کو متاثر کرے گا کیونکہ اتر پردیش وہ ریاست ہے جہاں دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء سمیت بڑے آزاد مدارس ہیں۔ مولانا مدنی نے اپنے خط میں واضح کیا کہ این سی پی سی آر امداد یافتہ مدارس کے بچوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر الگ کرنے کی ہدایات نہیں دے سکتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مذہب کے نام پر ملک کو تقسیم کرنے کی کارروائی ہے۔
مولانا نے یہ بھی کہا کہ یوپی حکومت کو یہ سمجھنا چاہئے کہ مدارس کی علیحدہ قانونی شناخت اور حیثیت ہے جسے کہ اسلامی مدارس کو مستثنیٰ دے کر مفت اور لازمی تعلیم کے حق قانون 2009 کے سیکشن 1(5) کے ذریعہ تسلیم کیا گیا ہے۔ اس لیے جمعیۃ علماء ہند مطالبہ کرتی ہے کہ 26 جون کے حکومتی حکم کو واپس لیا جائے۔