نئی دہلی:سپریم کورٹ نے (18 مارچ کو) الٰہ آباد ہائی کورٹ کے سامنے زیر التواء عوامی مفاد کی ایک عرضی کو اپنی طرف منتقل کر لیا، جس میں مسلم پرسنل (شریعت) ایکٹ، 1937 کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا گیا تھا اور یہ درخواست کی گئی تھی کہ سیکشن 494 آئی پی سی (عدّدِ زوجات - یعنی بیک وقت ایک سے زائد خواتین سے نکاح کرنے - کی سزا) کو بھارت کے آئین کے منافی قرار دیا جائے۔
گزشتہ برس مارچ میں جسٹس دیویندر کمار اپادھیائے اور جسٹس سبھاش ودیارتھی کی ہائی کورٹ بنچ نے ہندو پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے دائر کی گئی عوامی مفاد کی عرضی کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف انڈیا کو نوٹس جاری کیا تھا۔ تاہم، مرکز نے اس درخواست کی سپریم کورٹ میں منتقلی کی درخواست کی کیونکہ اسی نوعیت کے مسائل سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے ایک مقدمے (اشوینی کمار اوبھے بمقابلہ یونین آف انڈیا) میں زیر غور ہیں۔
آج جب معاملہ جسٹس سوریا کانت اور جسٹس کے وی وجے ناتھن کی بنچ کے سامنے آیا تو یہ بات سامنے آئی کہ اگرچہ نوٹس جاری کیا گیا تھا، لیکن جواب دہندہ (ہندو پرسنل لا بورڈ) نے عدالت میں پیش نہ ہوا۔ اس طرح یہ مشاہدہ کرتے ہوئے کہ اٹھائے گئے مسائل آئینی بنچ کے سامنے وسیع تر غور کے تحت ہیں، عدالت نے فوری عرضی کو منتقل کر دیا اور اس معاملے کو اسی مقدمے کے ساتھ ٹیگ کر دیا۔
عدالت کے حکم میں یہ لکھا گیا ہے کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ ہائی کورٹ میں مذکورہ بالا عرضی (writ petition) میں اٹھائے گئے مسائل بڑے پیمانے پر آئینی بنچ کے سامنے ریٹ پٹیشن نمبر 202 of 2018 میں زیر غور ہیں۔ نتیجتا، ہم اس عرضِ التماس Writ Petitionکو اس عدالت میں منتقل کرنا اور اسے ریٹ پٹیشن نمبر 202 of 2018 کے ساتھ ٹیگ کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔‘‘
سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے سامنے تعدّدِ زوجات اور نکاح حلالہ، جسے مسلم پرسنل لاء نے منظور دی ہے، سے متعلق کئی عرضیاں زیر غور ہیں۔ جبکہ دوسری جانب 2018 میں، اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مسرا کی سربراہی میں بنچ نے ان عرضیوں کو 5 ججوں کی بنچ کے پاس بھیج دیا تھا۔
موجودہ عوامی مفاد کی عرضی میں کیا کہا گیا ہے
عوامی مفاد کی یہ عرضی مسلم پرسنل لا (شریعت) ایکٹ، 1937 کو اس بنا پر چیلنج کرتی ہے کہ یہ مسلمانوں کو تعدّدِ زوجات کی اجازت دیتا ہے۔ عرضی کا موقف ہے کہ ہندو، جن میں بدھ مت، جین اور سکھ بھی شامل ہیں، کی مذہبی روایات میں بھی تعدّدِ زوجات شامل تھی لیکن اب یہ رسم قانوناً ممنوع ہے۔ اس تناظر میں عرضی میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ ہندو، جین، سکھ اور بدھ مت کے پیروکاروں (ماننے والوں) کو تعدّد زوجات سے روکنا اور اس کی اجازت صرف مسلمانوں کو دینا، مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک ہے اور اس طرح یہ آئین کے آرٹیکل 15 کے تحت ضمانت یافتہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
عوامی مفاد کی عرضی میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 44 مقننہ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ملک کے تمام شہریوں پر لاگو ہونے والا ایک مشترکہ سول کوڈ تشکیل دے۔ حالانکہ حکومت نے ہندوؤں (جن میں بدھ مت، جین اور سکھ شامل ہیں) کے لیے انفرادی قوانین بنائے ہیں، لیکن وہ مسلمانوں کے انفرادی قوانین میں مداخلت کرنے سے گریزاں ہے۔
جہاں تک سیکشن 494 آئی پی سی کا تعلق ہے، عرضی میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ مسلمانوں کو سزا کے دائرے سے خارج کرنا بھی امتیازی سلوک کی ایک شکل ہے۔ اس لیے اسے یا تو کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے تمام شہریوں پر لاگو کرنا چاہیے یا کسی پر بھی لاگو نہیں کرنا چاہیے۔ عرضی گزار کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’یا تو بھارت کی سرزمین پر کسی بھی شہری کی طرف سے کیے جانے والے تعدّدِ زوجات کو سزا دیے جانے والا جرم قرار دیا جائے، جس کا مطلب ہے کہ سیکشن 494 آئی پی سی کی دفعات تمام مذہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں پر لاگو ہوں۔ یا کسی پر بھی لاگو نہ ہوں، جس کا مطلب ہے کہ آئین کے آرٹیکل 15 کی دفعات، جو ریاست کو اپنے شہریوں کے درمیان ’صرف مذہب کی بنیاد پر‘ امتیازی سلوک کرنے سے منع کرتی ہے، کا احترام کیا جائے اور اسے تمام شہریوں پر کسی بھی قسم کی تفریق کے بغیر لاگو کیا جائے۔‘‘
مقدمے کا عنوان: یونین آف انڈیا بمقابلہ ہندو پرسنل لا بورڈ اور دیگر، ٹی۔پی۔(سی) نمبر 2541/2023
یہ بھی پڑھیں:رام مندر کا افتتاح اور مسلم پرسنل لا بورڈ کی ہدایات