نئی دہلی:سپریم کورٹ نے رام پور میں مولانا محمد علی جوہر ٹرسٹ کو دی گئی سرکاری زمین کی لیز منسوخ کرنے کے اتر پردیش حکومت کے فیصلے میں مداخلت کرنے سے انکار کردیا۔
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس جے بی پارڈی والا اور جسٹس منوج مشرا پر مشتمل بنچ نے مولانا محمد علی جوہر ٹرسٹ کی طرف سے دائر عرضی کو خارج کر دیا۔ اترپردیش کی یوگی حکومت نے جوہر ٹرسٹ کو 4 فروری 2015 کو دی زمین کی لیز کو منسوخ کر دیا تھا جسے ٹرسٹ نے پہلے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ بعد میں ٹرسٹ نے 18 مارچ 2024 کو سنائے گئے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
عدالت عظمیٰ کی سہ رکنی بنچ نے جوہر ٹرسٹ کی عرضی کو خارج کرنے کے ساتھ ساتھ ریاستی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ٹرسٹ کو لیز پر دی گئی زمین پر بنے ادارے میں پڑھنے والے طلباء کو متبادل مناسب اداروں میں داخلہ مل سکے۔
ٹرسٹ کے وکیل کپل سبل کی دلیل
سپریم کورٹ میں ٹرسٹ کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ ریاست کی یوگی حکومت کی طرف سے یہ فیصلہ بغیر کوئی وجہ بتائے لیا گیا۔ تاہم چیف جسٹس آف انڈیا چندرچوڑ نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ '2015 میں زمین لیز پر دینے کا فیصلہ اس وقت لیا گیا تھا جب اعظم خان وزیر تھے۔ اس سے ایک ایسے نجی ٹرسٹ کو دی گئی لیز کی درستگی پر شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں جس کے اعظم خان تاحیات رکن تھے۔
سی جے آئی نے کہا کہ ''ایسا لگتا ہے کہ آپ کے مؤکل (اعظم خان) دراصل شہری ترقیات کی وزارت کے انچارج کابینہ وزیر تھے اور وہ اقلیتی بہبود کے وزیر بھی تھے۔ انہوں نے ایک خاندانی ٹرسٹ کو زمین الاٹ کی تھی جس کے وہ تاحیات رکن ہیں۔ لیز شروع میں ایک سرکاری انسٹی ٹیوٹ کے حق میں تھی، بعد میں اسے ایک پرائیویٹ ٹرسٹ کے لیے ٹیگ کیا گیا ہے۔ ایک سرکاری انسٹی ٹیوٹ کے لیے دی گئی لیز کو ایک نجی ٹرسٹ کو کیسے دیا جا سکتا ہے؟"
مزید پڑھیں: دشمن املاک کی جانچ کے لیے وزارت داخلہ کی ٹیم جوہر یونیورسٹی پہنچی
کپل سبل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مسئلہ نوٹس نہ دینے کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ "میں ان میں سے کسی سے بھی اختلاف نہیں کر رہا ہوں۔ مسئلہ یہ ہے، اگر وہ مجھے نوٹس دیتے اور وجوہات بتاتے تو میں اس کا جواب دے سکتا تھا۔''