اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

لیز کی منسوخی کے خلاف جوہر ٹرسٹ کی عرضی سپریم کورٹ سے خارج، عدالت نے کہا، اعظم خان کے وزیر رہتے....

فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ جوہر ٹرسٹ کو زمین لیز پر اس وقت دی دی گئی تھی جب اعظم خان وزیر تھے۔

By ETV Bharat Urdu Team

Published : 5 hours ago

لیز کی منسوخی کے خلاف جوہر ٹرسٹ کی عرضی سپریم کورٹ سے خارج
لیز کی منسوخی کے خلاف جوہر ٹرسٹ کی عرضی سپریم کورٹ سے خارج (Getty images / ETV Bharat)

نئی دہلی:سپریم کورٹ نے رام پور میں مولانا محمد علی جوہر ٹرسٹ کو دی گئی سرکاری زمین کی لیز منسوخ کرنے کے اتر پردیش حکومت کے فیصلے میں مداخلت کرنے سے انکار کردیا۔

چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس جے بی پارڈی والا اور جسٹس منوج مشرا پر مشتمل بنچ نے مولانا محمد علی جوہر ٹرسٹ کی طرف سے دائر عرضی کو خارج کر دیا۔ اترپردیش کی یوگی حکومت نے جوہر ٹرسٹ کو 4 فروری 2015 کو دی زمین کی لیز کو منسوخ کر دیا تھا جسے ٹرسٹ نے پہلے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ بعد میں ٹرسٹ نے 18 مارچ 2024 کو سنائے گئے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔

عدالت عظمیٰ کی سہ رکنی بنچ نے جوہر ٹرسٹ کی عرضی کو خارج کرنے کے ساتھ ساتھ ریاستی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ٹرسٹ کو لیز پر دی گئی زمین پر بنے ادارے میں پڑھنے والے طلباء کو متبادل مناسب اداروں میں داخلہ مل سکے۔

ٹرسٹ کے وکیل کپل سبل کی دلیل

سپریم کورٹ میں ٹرسٹ کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ ریاست کی یوگی حکومت کی طرف سے یہ فیصلہ بغیر کوئی وجہ بتائے لیا گیا۔ تاہم چیف جسٹس آف انڈیا چندرچوڑ نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ '2015 میں زمین لیز پر دینے کا فیصلہ اس وقت لیا گیا تھا جب اعظم خان وزیر تھے۔ اس سے ایک ایسے نجی ٹرسٹ کو دی گئی لیز کی درستگی پر شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں جس کے اعظم خان تاحیات رکن تھے۔

سی جے آئی نے کہا کہ ''ایسا لگتا ہے کہ آپ کے مؤکل (اعظم خان) دراصل شہری ترقیات کی وزارت کے انچارج کابینہ وزیر تھے اور وہ اقلیتی بہبود کے وزیر بھی تھے۔ انہوں نے ایک خاندانی ٹرسٹ کو زمین الاٹ کی تھی جس کے وہ تاحیات رکن ہیں۔ لیز شروع میں ایک سرکاری انسٹی ٹیوٹ کے حق میں تھی، بعد میں اسے ایک پرائیویٹ ٹرسٹ کے لیے ٹیگ کیا گیا ہے۔ ایک سرکاری انسٹی ٹیوٹ کے لیے دی گئی لیز کو ایک نجی ٹرسٹ کو کیسے دیا جا سکتا ہے؟"

مزید پڑھیں: دشمن املاک کی جانچ کے لیے وزارت داخلہ کی ٹیم جوہر یونیورسٹی پہنچی

کپل سبل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مسئلہ نوٹس نہ دینے کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ "میں ان میں سے کسی سے بھی اختلاف نہیں کر رہا ہوں۔ مسئلہ یہ ہے، اگر وہ مجھے نوٹس دیتے اور وجوہات بتاتے تو میں اس کا جواب دے سکتا تھا۔''

عہدے کا غلط استعمال

کپل سبل کی دلیل کے جواب میں سی جے آئی نے کہا کہ کیس کے حقائق نے اختیارات کے غلط استعمال کو اجاگر کیا ہے اور جب حقائق اتنے تلخ ہیں تو مناسب نوٹس سے انکار کوئی بڑی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی۔ سی جے آئی نے کہا کہ "یہ دفتر کا غلط استعمال ہے... شروع میں جب میں نے پڑھنا شروع کیا تو میں نے کہا، ٹھیک ہے، نوٹس دیکھو، کیا تمہیں موقع دیا گیا تھا... لیکن جب آپ نے یہ حقائق دیکھے تو اس کے بعد کیا بچتا ہے..."

تاہم سبل نے کہا کہ لیز کی منسوخی بہت غلط تھی۔ انہوں نے کہا کہ ٹرسٹ غریب طلباء کو رعایتی شرحوں پر تعلیم دے رہا ہے۔ اس ادارے میں پانچ فیصد طلباء کو بیس روپے کے حساب سے تعلیم دی جاتی ہے۔ " 18 مارچ کو امتحان ہونے والے تھے اور انہوں نے 14 مارچ کو قبضہ کر لیا۔ جوہر ٹرسٹ غیر منافع بخش ادارہ ہے۔ 300 طلباء کے پاس اب پڑھنے کے لیے کوئی اسکول نہیں ہے،"

طلبہ کو دوسرے اسکولوں میں ایڈجسٹ کرنے کی ہدایت

سبل کی اس دلیل کو نظر انداز کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا "مسٹر سبل، حقائق بہت تلخ ہیں۔۔۔ ہم اسے یہیں چھوڑ دیں گے۔" اس پر سبل نے درخواست کی کہ "میں اتفاق کرتا ہوں۔ ان 300 طلباء کا کیا ہوگا جن کے پاس جانے کے لیے اسکول نہیں ہے۔ کم از کم حکومت کو چاہیے کہ وہ ان طلبہ کو ایڈجسٹ کرے۔"

یہ بھی پڑھیں: جوہر یونیورسٹی کی دو عمارتیں سیل کردی گئیں

بنچ نے یہ کہتے ہوئے درخواست خارج کردی کہ ہائی کورٹ کے فیصلے میں کوئی نقص نہیں ہے۔ " اسی کے ساتھ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ''ہم محکمہ اسکول ایجوکیشن کے سکریٹری سے درخواست کریں گے یا اس معاملے میں جو بھی مجاز اتھارٹی ہوسکتا ہے کہ ریاست اترپردیش، مندرجہ بالا شکایت پر غور کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کسی بھی بچے کو کسی مناسب تعلیمی ادارے میں داخلے سے انکار نہ کیا جائے،‘‘

مزید پڑھیں: اعظم خان ڈنگر پور بستی کے ایک اور کیس میں بری

اعظم خان کی اہلیہ بجلی چور نہیں ہیں، رام پور کی عدالت نے 4 سال پرانے کیس میں بری کر دیا

ABOUT THE AUTHOR

...view details