حیدرآباد:انسان کو اعلیٰ مقام تک پہنچانے میں دو شخصیات کا اہم رول ہوتا ہے۔ ایک اس کے خود کے والدین اور دوسرے اس کے اساتذہ۔ اگر بچوں کی صحیح رہنمائی ہوتی ہے تو یہی بچے بڑے ہوکر اپنے والدین، استاد، شہر اور ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔ اعلیٰ مقام حاصل کرنے والوں میں ان کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جنہوں نے باقائدہ تعلیم حاصل کی ہے۔ آج پورے بھارت میں یومِ اساتذہ (ٹیچرس ڈے) منایا جا رہا ہے۔
یوم اساتذہ دراصل ملک کے عظیم استاد، فلسفی، مصلح و ماہرِ تعلیم اور سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر سرو پلی رادھا کرشنن کے یوم پیدائش کے موقعے پر منایا جاتا ہے۔ آزاد بھارت کے دوسرے صدر جمہوریہ سروے پلی رادھا کرشنن کی پیدائش پانچ ستمبر 1888 کو ریاست تمل ناڈو کی دارالحکومت چنئی کے تروتانی میں ہوئی تھی۔ اسی موقعے پر اس دن کو ہم یومِ اساتذہ کے طور پر مناتے ہیں۔
اساتذہ کی مدد سے بچے آگے بڑھ سکتے ہیں:
اساتذہ اور والدین کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ طلبہ کی رہنمائی کرکے ان کو ہدف تک پہنچا سکتے ہیں۔ اساتذہ بچوں کو صرف پڑھاتے ہی نہیں، بلکہ وہ بچوں کی ضروریات کو بھی وہ سمجھتے ہیں۔ وہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنے کام کے دائرہ کار کو کلاس روم سے آگے بڑھاتے ہیں۔ طلبہ کو اپنے ساتھ مختلف مقامات پر لے جاتے ہیں، وہاں پر ان مقامات کی اہمیت بتاتے ہیں، اس کی تاریخ بیان کرتے ہیں۔ اساتذہ طلبہ کی کامیابی کے لیے کوششیں کرتے ہیں۔ یہ ایسے اساتذہ ہیں جنہوں نے ہزاروں طلبہ کی زندگیوں کو سنوارا ہے۔ گلوبل ٹیچر پرائز، جسے تدریس کا نوبل انعام سمجھا جاتا ہے، جو ان کی بہترین خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے۔
آپ بڑے ہو کر کیا بنیں گے؟
کوئی طالب علم ایسا نہیں ہے جس نے بچپن میں اس سوال کا سامنا نہ کیا ہو، اور کوئی والدین ایسے نہیں ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کے بڑے ہونے پر یہ نہ پوچھا ہو کہ وہ بڑے ہو کر کیا بنیں گے۔ نہ صرف گھر بلکہ اسکول میں بھی اساتذہ بعض مواقع پر طلبا سے یہی پوچھتے ہیں۔ لیکن انہیں کبھی یہ جواب نہیں ملتا کہ 'میں آپ جیسا استاد بننا چاہتا ہوں۔' یا اگر اس طرح کا جواب ملتا بھی ہے تو اس کا فیصد بہت کم ہے۔
آج کا طالب علم کیا بننا چاہتا ہے؟
یہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ صرف کتابوں سے پڑھ کر کوئی عروج پر نہیں پہنچ سکتا ہے۔ ایک طالب علم کی کامیابی کے لئے ایک دوراندیش استاد کا ہونا بہت ضروری ہے جو یہ جانتا ہو کہ کون سا طالب علم مستقبل میں کیا بن سکتا ہے۔
آپ کسی بھی طالب علم سے پوچھو وہ یہی کہے گا کہ ہم ڈاکٹر، انجیئر یا پھر وکیل بنیں گے۔ والدین بھی یہی چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد بڑے ہوکر فلاں شعبہ میں نام کمائے۔ مگر استاد کی دوراندیشی نظر ہی بتا سکتی ہے کہ طالب علم آگے چل کر کیا بن سکتا ہے۔ خوابوں کا کریئر کبھی بھی تدریسی کام نہیں ہوتا۔ اگر کوئی غلطی سے ایسا کہے تو والدین پریشان ہو جائیں گے۔ کسی بھی پیشہ کی ترجیح طالب علم کی اپنی ہوتی ہے۔ والدین کو بھی اپنی اولاد پر زیادہ دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے۔ اکثر دیکھا یہ گیا ہے کہ دباؤ ڈالنے سے بچے وہ ہدف حاصل نہیں کر پاتے ہیں جس کے لئے انہوں نے خود خواب بُنے تھے۔
یوم اساتذہ کا تاریخی پس منظر
ڈاکٹر سرو پلی رادھا کرشنن نے مدراس یونیورسٹی سے فلسفہ میں ماسٹرز کیا۔
اس کے بعد وہ میسور اور کولکاتا یونیورسٹی میں ایک عرصہ تک درس و تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے۔
بھارت میں پہلا یوم اساتذہ 5 ستمبر 1962 کو اس دن منایا گیا جب ڈاکٹر سرو پلی رادھا کرشنن بھارت کے دوسرے صدر جمہوریہ کے باوقار عہدے پر فائز ہوئے۔
وہ بھارت کے پہلے نائب صدر بھی بنائے گئے۔
بھارت کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد کی وفات کے بعد ڈاکٹر سرو پلی رادھا کرشنن صدر جمہوریہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
ان کی اعلیٰ کارکردگی سے متاثر ہوکر ان کے طلبا نے ان سے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ ہر برس پانچ ستمبر کو وہ لوگ ’’یوم رادھا کرشنن‘‘ منانا چاہتے ہیں۔ تاہم ڈاکٹر سرو پلی رادھا کرشنن نے اس کو پسند نہ کیا بلکہ انھوں نے کہا کہ میرے نام کے بجائے اگر اس دن کو یوم اساتذہ کے طور پر منایا جائے تو یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہوگی۔
ڈاکٹر سرو پلی رادھا کرشنن کی زندگی پر ایک نظر:
- پیدائش: 5 ستمبر 1888
- تعلیم: ایم اے، ڈی لِٹ، ایل ایل ڈی، ڈ سی ایل، لٹ ڈی، ڈی ایل، ایف آر ایس ایل اور ایف بی اے سمیت آکسفورڈ یونیورسٹی) کے اعزازی فیلو تھے۔
- تصنیف و تالیف: 1917 ان کی پہلی کتاب ’’فلاسفی آف رویندر ناتھ ٹیگور‘‘ شائع ہوئی۔ یہ بھارتی فلسفہ کو سمجھنےمیں ایک معاون کتاب سمجھی جاتی ہے۔
- درس و تدریس: میسور یونیورسٹی میں 1918 سے 1921 تک کلکتہ یونیورسی میں 1921 سے 1931 تک
- یونیورسٹی آف انگلینڈ 1936 تا 1952
- بنارس ہندو یونیورسٹی 1939 تا 1948
- سرو پلی رادھا کرشننن بحیثیت وائس چانسلر: آندھرا یونیورسٹی کے وائس چانسلر 1931 تا 1936
- بنارس ہندو یونیورسٹی کے وائس چانسلر 1948
- وہ دہلی یونیورسٹی کے چانسلر 1953 تا 1962
- یونیسکو (1946-52) میں ہندوستان کی نمائندگی کی اور 1949-1952 تک یو ایس ایس آر میں ہندوستانی سفیر رہے۔
- 1931 میں نائٹ ہُڈ کا خطاب
- بھارت رتن : 1954
- ٹیمپلٹن پرائز: 1975
- برٹش رائل آرڈر آف میرٹ: 1963
- دی ایکویسٹرین آرڈائن ملیٹی اورٹا (De Equestrine Ordine Militae Auratae) کا اعزاز ویٹیکن سٹی کے سربراہ پوپ پال ششم کے ہاتھوں 1964 میں ملا
بھارت کے اس عظیم رہنما و دانشور کا انتقال 86 برس کی عمر میں ان کے آبائی وطن چنئی میں 17 اپریل 1975 کو ہوا۔
ڈاکٹر سرو پلی رادھا کرشنن کے اقوال زریں:
- حقیقی اساتذہ وہ ہیں، جو اپنے طلبا کو بہترین سے بہترین تربیت فراہم کرتے ہیں۔
- تعلیم ایک ایسا ہنر و فن ہے، جو انسان کو مشکل حالات کے خلاف لڑنا سکھاتا ہے۔
- حقیقی اساتذہ وہ ہیں، جو اپنے طلبا کو بہتر سے بہتر تربیت فراہم کرتے ہیں۔
- میرا یوم پیدائش منانے کے بجائے اگر 5 ستمبر کو یوم اساتذہ منایا جائے تو مجھے زیادہ فخر ہوگا۔
- یہ حقیقت ہے کہ تھوڑی سی تاریخ بنانے میں صدیوں کا عرصہ بیت جاتا ہے، جب کہ ایک اچھی نسل بنانے میں صدیاں گزر جاتی ہیں۔
- ہمدردی کا جذبہ، محبت، شفقت اور عمدہ روایات کو فروغ دینا تعلیم کا اہم مقصد ہے۔
- تعلیم کا اہم مقصد ایک ذہین، آزاد، با اخلاق اور زمانہ شناس انسان بنانا ہے۔
- جب ہم سوچتے ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں۔ ہم اسی وقت سیکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔
- سچا مذہب ایک انقلابی طاقت ہے جو ظلم و ستم اور ناانصافی کا دشمن ہے۔
- ہمیں انسانیت کو ان جڑوں تک دوبارہ پہنچانا ہوگا جہاں سے خوش نظمی اور آزادی پھلے پھولے۔
ہندوستان کے اب تک کے سب سے بڑے اساتذہ:
گوتم بدھا (480 قبل مسیح)
گوتم بدھ شاید ہندوستانی تاریخ کے پہلے استاد تھے جنہیں ہم ابھی تک جانتے ہیں۔ گوتم بدھ نے روشن خیالی کے حصول میں اپنی شاہی آسائشوں کو ترک کر دیا۔ ان کی تعلیمات میں صحیح نقطہ نظر، صحیح نیت، صحیح گفتگو، صحیح معاش، صحیح طرز عمل، صحیح ذہن سازی، صحیح کوشش اور صحیح مراقبہ شامل ہیں۔
گوتم بدھ کا قول: 'آپ کا دشمن آپ کا سب سے بڑا استاد ہو سکتا ہے۔'
چانکیا (350-283 قبل مسیح)
کوٹیلیہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، چانکیا ایک ممتاز فلسفی، تکشیلا کے پروفیسر، اور شاہی مشیر تھے۔ وہ ہندوستان کے عظیم اساتذہ میں سے ایک ہیں۔ اس کا بنیادی کام، "ارتھ شاستر،" ریاستی دستکاری، معاشیات، اور فوجی حکمت عملی پر روشنی ڈالتا ہے۔ ان کی کتاب چانکیہ نیتی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔ یہ ہمیں آگے سوچنا اور اپنے اعمال کے نتائج پر غور کرنا سکھاتا ہے۔
چانکیا کا قول:کوئی بھی استاذ کبھی معمولی نہیں ہوتا، تعمیر اور تخریب اس کے گود میں پلتے ہیں
سوامی دیانند سرسوتی (1824-1883)
سوامی دیانند نے 7 اپریل 1875 کو ممبئی میں آریہ سماج کے نام سے ہندو اصلاحی تنظیم کی بنیاد رکھی جس نے تعلیم اور مذہب کے میدان میں انقلاب برپا کیا۔ دیانند سرسوتی کی بنیادی تعلیمات میں ویدوں کی اولیت، سماجی اور مذہبی اصلاح، تعلیمی تبدیلی، قوم پرستی کا فروغ، اور برطانوی راج سے آزادی شامل تھیں۔
سوامی دیانند سرسوتی کا قول:وہ شخص اچھا اور عقلمند ہے جو ہمیشہ سچ بولتا ہے، مذہب کے مطابق کام کرتا ہے اور دوسروں کے لیے خوشی اور بہتری کی کوشش کرتا ہے۔
سوامی وویکانند (1863-1902)
سری رام کرشن پرم ہنس کے ایک سرشار شاگرد، سوامی وویکانند ایک روحانی صلاحیت اور بصیرت والے انسان تھے۔ وہ نہ صرف عظیم ہندوستانی مصلحین میں سے ایک تھے بلکہ وہ اپنی بے مثال ذہانت کے لیے جانے جاتے تھے اور ہندوستان کے بہترین اساتذہ میں سے ایک تھے۔ انہوں نے مغرب کو ہندو فلسفہ اور ویدانت سے متعارف کرایا۔ شکاگو میں عالمی مذاہب کی 1893 کی پارلیمنٹ میں ان کی تاریخی تقریر بین المذاہب مکالمے کے لیے ایک سنگ بنیاد ہے۔