ایماندار مسیحا عزیز قریشی جن کی وفات پر دنیا سوگوار ہے، اسی سلسلہ میں ای ٹی وی بھارت نمائندہ نے فصیح صدیقی سے بات کی لکھنؤ:اتر پردیش میں میزورم اور اتراکھنڈ کے سابق گورنر ڈاکٹر عزیز قریشی کا بھوپال کے اپولو اسپتال میں 83 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ جس کے بعد ملی، فلاحی، سماجی اور سیاسی جماعتوں کے رہنما شدید رنج و غم کا اظہار کر رہے ہیں۔ اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ سے ڈاکٹر عزیز قریشی کا خاصہ لگاؤ رہا ہے۔ وہ جب بھی لکھنؤ کا دورہ کرتے تھے تو فصیح صدیقی کے یہاں ہی قیام کرتے تھے۔ فصیح صدیقی سے گھریلو تعلقات تھے اور یہ تعلقات تقریباً 30 برس قدیم ہوگئے تھے۔ فصیح صدیقی کے والد کانگریس سے رکن اسمبلی رہ چکے ہیں اور یہی وجہ رہی کہ یہ تعلقات گھریلو تعلقات میں تبدیل ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں:
کانگریس کے سینئر رہنما و سابق گورنر ڈاکٹر عزیز قریشی کا انتقال
ای ٹی وی بھارت نے فصیح صدیقی سے خاص بات چیت کی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عزیز قریشی کے انتقال سے میرا پورا گھر شدید رنج و غم میں ہے اور میں خود اس غم کو کیسے برداشت کروں، مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے تعلقات تقریباً 30 برس قدیم تھے اور وہ ہمارے گھر کے بڑے تھے۔ ایک سائے کے طور پر تھے، پہلی بار ان سے ملاقات اس وقت ہوئی جب کانگریس پارٹی نے ان کو اتر پردیش میں بابری مسجد انہدام کے بعد بھیجا تھا کہ وہاں کے مسلمانوں میں جو غم و غصہ ہے۔ اسے دور کیا جائے اور کانگریس پارٹی کے لیے راہ ہموار کی جائے۔ اس زمانے سے آج تک یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ ڈاکٹر عزیز قریشی ہمارے خانوادے کے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی شخصیتیں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں وہ ایک قدآور رہنما کے ساتھ ساتھ قوم کے لیے ہمیشہ فکرمند رہتے تھے۔ وہ اردو زبان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب وہ میزورم کے گورنر بنائے گئے اس وقت میزورم میں مسلمانوں کو جانے کے لیے اجازت لینی پڑتی تھی اور وہاں کوئی بھی مسلمان اگر انتقال کرتا تھا تو سینکڑوں میل دور آسام لے کر آتے تھے اور وہاں دفن کرتے تھے۔ کیونکہ میزورم میں کوئی قبرستان نہیں تھا اور نہ ہی دفن کرنے کی اجازت تھی۔
فصیح صدیقی نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا، لیکن ڈاکٹر قریشی نے وہاں مسلمانوں کے لیے قبرستان بھی بنوایا۔ تدفین کے لیے قانون بھی پاس کیا اور اسے نافذ بھی کرایا۔ اس کے علاوہ بھی جب وہ اتراکھنڈ کے گورنر بنائے گئے تو وہاں اردو اکیڈمی کا قیام کیا اور اردو کے فروغ و اشاعت کے لیے اکیڈمی کو متحرک و فعال بنا دیا، اتر پردیش میں جب گورنر ہوئے تو جوہر یونیورسٹی کے قیام میں اہم کردار رہا۔ وہ گورنر ہاؤس کو جنتا دربار کے طور پر بھی کھولنے لگے تھے اور یہی وجہ تھی کہ بے پناہ عوام ان سے محبت کرنے لگی، وہ گنگا جمنی تہذیب کے بھی علمبردار تھے۔ انہوں نے سنسکرت زبان کے فروغ کے لیے کئی اہم پروگرام کرائے۔ اس کے ساتھ گنگا صفائی ابھیان بھی شروع کرایا تھا۔ وہ ملک کے مسلمانوں کو ہمیشہ آپسی بھائی چارہ اور قومی یکجہتی کا پیغام دیتے تھے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر قریشی اگرچہ مدھیہ پردیش کے بھوپال میں پیدا ہوئے۔ لیکن ان کو دنیا میں مدھیہ پردیش کے علاوہ اگر کوئی جگہ زیادہ پسند تھی تو وہ لکھنؤ تھا۔ وہ لکھنؤ میں آتے تھے اور کہتے تھے کہ میں صرف ایک ہفتہ یہاں قیام کروں گا لیکن 20 دن ایک ماہ بھی گزر جاتے تھے اور وہ لکھنؤ ہی میں رہتے تھے۔ انہوں نے کانگریس پارٹی سے ہمیشہ وابستگی رکھی۔ کبھی کانگریس پارٹی سے منحرف نہیں ہوئے۔ جن کا پارٹی بھی اعتبار کرتی تھی۔
ایک بار کا واقعہ ہے کہ جب مدھیہ پردیش میں وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے لیے کانگریس پارٹی نے انہیں آگے کیا تھا لیکن سنجے گاندھی سے ان کے تعلقات کچھ اچھے نہیں تھے اور انہوں نے اعتراض کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ وزیر اعلیٰ بنتے بنتے رہ گئے۔ وہ نہایت ہی خودار اور ایماندار رہنما تھے۔ آج بھی ان کے گھر میں اے سی نہیں لگی ہے اور وہ کہا کرتے تھے کہ اے سی کے اخراجات ہم نہیں اٹھا پائیں گے۔ اخیر وقت میں علاج کرنے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ گھر کے زیورات فروخت کر کے انہوں نے اپنا علاج کرایا حالانکہ کئی سیاسی رہنماؤں نے علاج کے پیسے بھی بھجوائے تھے۔ لیکن انہوں نے برجستہ منع کر دیا۔