- بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
قَالَ إِنَّهُۥ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٞ لَّا ذَلُولٞ تُثِيرُ ٱلۡأَرۡضَ وَلَا تَسۡقِي ٱلۡحَرۡثَ مُسَلَّمَةٞ لَّا شِيَةَ فِيهَاۚ قَالُواْ ٱلۡـَٰٔنَ جِئۡتَ بِٱلۡحَقِّۚ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُواْ يَفۡعَلُونَ (71)
ترجمہ: 'موسیٰ ( علیہ السلام) نے جواب دیا کہ حق تعالیٰ یوں فرماتے ہیں کہ وہ (ایسی) گائے ہے نہ تو ہل میں چلا ہوا ہو جس سے زمین جوتی جاوے اور نہ اس سے زراعت کی آبپاشی کی جاوے (غرض ہر قسم کے عیب سے) سالم ہو اور اس میں کوئی داغ نہ ہو (یہ سن کر) کہنے لگے کہ اب آپ نے پوری بات فرمائی پھر اس کو ذبح کیا اور اپنی حجتوں سے ظاہرا) کرتے ہوئے معلوم نہ ہوتے تھے۔'
وَإِذۡ قَتَلۡتُمۡ نَفۡسٗا فَٱدَّٰرَٰءۡتُمۡ فِيهَاۖ وَٱللَّهُ مُخۡرِجٞ مَّا كُنتُمۡ تَكۡتُمُونَ (72)
ترجمہ: 'اور جب تم لوگوں ( میں سے کسی نے ایک آدمی کا خون کردیا پھر ایک دوسرے پر اس کو ڈالنے لگے اور اللہ تعالی کو اس امر کا ظاہر کرنا منظور تھا جس کو تم مخفی رکھنا چاہتے تھے۔'
فَقُلۡنَا ٱضۡرِبُوهُ بِبَعۡضِهَاۚ كَذَٰلِكَ يُحۡيِ ٱللَّهُ ٱلۡمَوۡتَىٰ وَيُرِيكُمۡ ءَايَٰتِهِۦ لَعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُونَ (73)
ترجمہ: 'اس لیے ہم نے حکم دیا کہ اس کو اس کے کوئی سے ٹکڑے سے چھوا دو۔ اسی طرح حق تعالیٰ قیامت میں) مردوں کو زندہ کریں گے اور اللہ تعالی اپنے نظائر قدرت تم کو دکھلاتے ہیں اسی توقع پر کہ تم عقل سے کام لیا کرو۔' (3)
3 ۔ اس مقتول نے زندہ ہو کر اپنے قاتل کا نام بتادیا اور فورا مر گیا۔
ثُمَّ قَسَتۡ قُلُوبُكُم مِّنۢ بَعۡدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَٱلۡحِجَارَةِ أَوۡ أَشَدُّ قَسۡوَةٗۚ وَإِنَّ مِنَ ٱلۡحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنۡهُ ٱلۡأَنۡهَٰرُۚ وَإِنَّ مِنۡهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخۡرُجُ مِنۡهُ ٱلۡمَآءُۚ وَإِنَّ مِنۡهَا لَمَا يَهۡبِطُ مِنۡ خَشۡيَةِ ٱللَّهِۗ وَمَا ٱللَّهُ بِغَٰفِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُونَ (74)
ترجمہ: 'اس (ایسے ایسے واقعات) کے بعد تمہارے دل پھر بھی سخت ہی رہے تو یوں کہنا چاہیے کہ ان کی مثال پتھر کی سی ہے یا سختی میں پتھر سے بھی زیادہ سخت اور بعضے پتھر تو ایسے ہیں جن سے (بڑی بڑی) نہریں پھوٹ کر چلتی ہیں۔ اور ان ہی پتھروں میں سے بعضے ایسے ہیں کہ جو شق ہو جاتے ہیں پھر ان سے (اگر زیادہ نہیں تو تھوڑا ہی) پانی نکل آتا ہے اور ان ہی پتھروں میں سے بعضے ایسے ہیں جو خدا تعالی کے خوف سے نیچے لڑھک آتے ہیں اور حق تعالی تمہارے اعمال سے بیخبر نہیں ہیں۔' (4)
4 ۔ اس مقام پر ان پتھروں کے اقسام سہ گانہ میں ترتیب نہایت لطیف اور افادہ مقصود میں نہایت بلیغ ہے یعنی بعض پتھروں سے نہریں جاری ہوتی ہیں جن سے مخلوق کو بڑا نفع پہنچا ہے ان کے قلوب ایسے بھی نہیں بعض پتھروں میں اس سے کم تاثر ہے جس سے کم نفع پہنچتا ہے لیکن ان کے دل ان سے بھی زیادہ سخت ہیں اور بعض پتھروں سے گو کسی کو نفع نہیں پہنچتا مگر خود تو ان میں ایک اثر ہے مگر ان کے قلوب میں یہ انفعال ضعف بھی نہیں۔
أَفَتَطۡمَعُونَ أَن يُؤۡمِنُواْ لَكُمۡ وَقَدۡ كَانَ فَرِيقٞ مِّنۡهُمۡ يَسۡمَعُونَ كَلَٰمَ ٱللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُۥ مِنۢ بَعۡدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمۡ يَعۡلَمُونَ (75)
ترجمہ: (اے مسلمانو) کیا اب بھی تم توقع رکھتے ہو کہ یہ (یہود) تمہارے کہنے سے ایمان لے آئیں گے حالانکہ ان میں کے کچھ لوگ (ایسے گزرے ہیں کہ ) اللہ تعالی کا کلام سنتے تھے اور پھر اس کو کچھ کا کچھ کر ڈالتے تھے ( اور ) اس کو سمجھنے کے بعد (ایسا کرتے) اور جانتے تھے۔
- تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
قَالَ إِنَّهُۥ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٞ لَّا ذَلُولٞ تُثِيرُ ٱلۡأَرۡضَ وَلَا تَسۡقِي ٱلۡحَرۡثَ مُسَلَّمَةٞ لَّا شِيَةَ فِيهَاۚ قَالُواْ ٱلۡـَٰٔنَ جِئۡتَ بِٱلۡحَقِّۚ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُواْ يَفۡعَلُونَ (71)
ترجمہ: 'موسیٰ نے جواب دیا: اللہ کہتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہے جس سے خدمت نہیں لی جاتی ، نہ زمین جو تتی ہے نہ پانی کھینچتی ہے، صحیح سالم اور بے داغ ہو ۔ اس پر وہ پکار اُٹھے کہ ہاں، اب تم نے ٹھیک پتہ بتایا ہے۔ پھر اُنہوں نے اُسے ذبح کیا، ورنہ وہ ایسا کرتے معلوم نہ ہوتے تھے۔' 84
84- چونکہ ان لوگوں کو اپنی ہمسایہ قوموں سے گائے کی عظمت و تقدیس اور گاؤ پرستی کے مرض کی چھوت لگ گئی تھی اس لیے ان کو حکم دیا گیا کہ گائے ذبح کریں۔ ان کے ایمان کا امتحان ہی اسی طرح ہو سکتا تھا کہ اگر وہ واقعی اب خدا کے سوا کسی کو معبود نہیں سمجھتے، تو یہ عقیدہ اختیار کرنے سے پہلے جس بت کو معبود سمجھتے رہے ہیں اسے اپنے ہاتھ سے توڑ دیں۔ یہ امتحان بہت کڑا امتحان تھا۔ دلوں میں پوری طرح ایمان اترا ہوا تھا، اس لیے انہوں نے ٹالنے کی کوشش کی اور تفصیلات پوچھنے لگے۔ مگر جتنی جتنی تفصیلات وہ پوچھتے گئے اتنے ہی گھرتے چلے گئے یہاں تک کہ آخر کار اسی خاص قسم کی سنہری گائے پر، جسے اس زمانے میں پرستش کے لیے مختص کیا جاتا تھا، گویا انگلی رکھ کر بتایا گیا کہ اسے ذبح کرو۔ بائیبل میں بھی اس واقعے کی طرف اشارہ ہے، مگر وہاں یہ ذکر نہیں ہے کہ بنی اسرائیل نے اس حکم کو کس کس طرح ٹالنے کی کوشش کی تھی۔ (ملاحظہ ہو گفتی، باب ۱۹ - آیت ۱۰ - ۱)
وَإِذۡ قَتَلۡتُمۡ نَفۡسٗا فَٱدَّٰرَٰءۡتُمۡ فِيهَاۖ وَٱللَّهُ مُخۡرِجٞ مَّا كُنتُمۡ تَكۡتُمُونَ (72)
ترجمہ: اور تمہیں یاد ہے وہ واقعہ جب تم نے ایک شخص کی جان لی تھی، پھر اس کے بارے میں جھگڑنے اور ایک دوسرے پر قتل کا الزام تھوپنے لگے تھے اور اللہ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے کھول کر رکھ دے گا
فَقُلۡنَا ٱضۡرِبُوهُ بِبَعۡضِهَاۚ كَذَٰلِكَ يُحۡيِ ٱللَّهُ ٱلۡمَوۡتَىٰ وَيُرِيكُمۡ ءَايَٰتِهِۦ لَعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُونَ (73)
ترجمہ: اُس وقت ہم نے حکم دیا کہ مقتول کی لاش کو اس کے ایک حصے سے ضرب لگاؤ۔ دیکھو، اس طرح اللہ مردوں کو زندگی بخشا ہے اور تمھیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تا کہ تم سمجھو 85 .
85- اس مقام پر یہ بات تو بالکل صریح معلوم ہوتی ہے کہ مقتول کے اندر دوبارہ اتنی دیر کے لیے جان ڈالی گئی کہ وہ قاتل کا پتہ بتادے۔ لیکن اس غرض کے لیے جو تدبیر بتائی گئی تھی، یعنی " لاش کو اس کے ایک حصے سے ضرب لگاؤ ، “ اس کے الفاظ میں کچھ ابہام محسوس ہوتا ہے۔ تاہم اس کا قریب ترین مفہوم وہی ہے جو قدیم مفسرین نے بیان کیا ہے، یعنی یہ کہ اوپر جس گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اسی کے گوشت سے مقتول کی لاش پر ضرب لگانے کا حکم ہوا۔ اس طرح گویا بیک کرشمہ دوکار ہوئے۔ ایک یہ کہ اللہ کی قدرت کا ایک نشان انہیں دکھایا گیا۔ دوسرے یہ کہ گائے کی عظمت و تقدیس اور اس کی معبودیت پر بھی ایک کاری ضرب لگی کہ اس نام نہاد معبود کے پاس اگر کچھ بھی طاقت ہوتی، تو اسے ذبح کرنے سے ایک آفت برپا ہو جانی چاہیے تھی، نہ کہ اس کا ذبح ہونا الٹا مفید ثابت ہوتا۔
ثُمَّ قَسَتۡ قُلُوبُكُم مِّنۢ بَعۡدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَٱلۡحِجَارَةِ أَوۡ أَشَدُّ قَسۡوَةٗۚ وَإِنَّ مِنَ ٱلۡحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنۡهُ ٱلۡأَنۡهَٰرُۚ وَإِنَّ مِنۡهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخۡرُجُ مِنۡهُ ٱلۡمَآءُۚ وَإِنَّ مِنۡهَا لَمَا يَهۡبِطُ مِنۡ خَشۡيَةِ ٱللَّهِۗ وَمَا ٱللَّهُ بِغَٰفِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُونَ (74)
ترجمہ: مگر ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخر کار تمہارے دل سخت ہو گئے، پتھروں کی طرح سخت، بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے، کیونکہ پتھروں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے اللہ تمہارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے
أَفَتَطۡمَعُونَ أَن يُؤۡمِنُواْ لَكُمۡ وَقَدۡ كَانَ فَرِيقٞ مِّنۡهُمۡ يَسۡمَعُونَ كَلَٰمَ ٱللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُۥ مِنۢ بَعۡدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمۡ يَعۡلَمُونَ (75)
ترجمہ: اے مسلمانو ! اب کیا ان لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمھاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے 86 ؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی۔ 87
86- یہ خطاب مدینے کے ان کو مسلموں سے ہے جو قریب کے زمانے ہی میں نبی عربی لی اسلام پر ایمان لائے تھے۔ ان لوگوں کے کان میں پہلے سے نبوت، کتاب، ملائکه، آخرت، شریعت وغیرہ کی جو باتیں پڑی ہوئی تھیں، وہ سب انہوں نے اپنے ہمسایہ یہودیوں ہی سے سنی تھیں۔ اور یہ بھی انہوں نے یہودیوں ہی سے سنا تھا کہ دنیا میں ایک پیغمبر اور آنے والے ہیں، اور یہ کہ جو لوگ ان کا ساتھ دیں گے وہ ساری دنیا پر چھا جائیں گے۔ یہی معلومات تھیں جن کی بنا پر اہل مدینہ نبی السلام کی نبوت کا چرچا سن کر آپ لی اسلام کی طرف خود متوجہ ہوئے اور جوق در جوق ایمان لائے۔ اب وہ متوقع تھے کہ جو لوگ پہلے ہی سے انبیا اور کتب آسمانی کے پیرو ہیں اور جن کی دی ہوئی خبروں کی بدولت ہی ہم کو نعمت ایمان میسر ہوئی ہے، وہ ضرور ہمارا ساتھ دیں گے، بلکہ اس راہ میں پیش پیش ہوں گے۔ چناچہ یہی توقعات لے کر یہ پرجوش کو مسلم اپنے یہودی دوستوں اور ہمسایوں کے پاس جاتے تھے اور ان کو اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ پھر جب وہ اس دعوت کا جواب انکار سے دیتے تو منافقین اور مخالفین اسلام اس سے یہ استدلال کرتے تھے کہ معاملہ کچھ مشتبہ معلوم ہوتا ہے، ورنہ اگر یہ واقعی نبی ہوتے تو آخر کیسے ممکن تھا کہ اہل کتاب کے علما اور مشائخ اور مقدس بزرگ جانتے بوجھتے ایمان لانے سے منہ موڑتے اور خواہ مخواہ اپنی عاقبت خراب کر لیتے۔ اس بنا پر بنی اسرائیل کی تاریخی سرگزشت بیان کرنے کے بعد اب ان سادہ دل مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ جن لوگوں کی سابق روایات یہ کچھ رہی ہیں ان سے تم کچھ بہت زیادہ لمبی چوڑی توقعات نہ رکھو، ورنہ جب ان کے پتھر دلوں سے تمہاری دعوت حق ٹکرا کر واپس آئے گی، تو دل شکستہ ہو جاؤ گے۔ یہ لوگ تو صدیوں کے بگڑے ہوئے ہیں۔ اللہ کی جن آیات کو سن کر تم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے، انہی سے کھیلتے اور تمسخر کرتے ان کی نسلیں بیت گئی ہیں۔ دین حق کو مسخ کر کے یہ اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال چکے ہیں اور اسی مسخ شدہ دین سے یہ نجات کی یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ امیدیں باندھے بیٹھے ہیں۔ ان سے حق کی آواز بلند ہوتے ہی یہ ہر طرف سے دوڑے چلے آئیں گے۔
87- ایک گروہ “ سے مراد ان کے علما اور حاملین شریعت ہیں۔” کلام اللہ “ سے مراد تورات، زبور اور وہ دوسری کتابیں ہیں جو ان لوگوں کو ان کے انبیا کے ذریعے سے پہنچیں۔ ” تحریف “ کا مطلب یہ ہے کہ بات کو اصل معنی و مفہوم سے پھیر کر اپنی خواہش کے مطابق کچھ دوسرے معنی پہنا دینا، جو قائل کے منشا کے خلاف ہوں۔ نیز الفاظ میں تغیر و تبدل کرنے کو بھی تحریف کہتے ہیں۔۔۔۔ علماء بنی اسرائیل نے یہ دونوں طرح کی تعریفیں کلام الہی میں کی ہیں۔
- کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
قَالَ إِنَّهُۥ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٞ لَّا ذَلُولٞ تُثِيرُ ٱلۡأَرۡضَ وَلَا تَسۡقِي ٱلۡحَرۡثَ مُسَلَّمَةٞ لَّا شِيَةَ فِيهَاۚ قَالُواْ ٱلۡـَٰٔنَ جِئۡتَ بِٱلۡحَقِّۚ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُواْ يَفۡعَلُونَ (71)
ترجمہ: کہا وہ فرماتا ہے کہ وہ ایک گائے ہے جس سے خدمت نہیں لی جاتی کہ زمین جوتے اور نہ کھیتی کو پانی دے بے عیب ہے جس میں کوئی داغ نہیں بولے اب آپ ٹھیک بات لائے تو اسے ذبح کیا اور (ذبح) کرتے معلوم نہ ہوتے تھے
وَإِذۡ قَتَلۡتُمۡ نَفۡسٗا فَٱدَّٰرَٰءۡتُمۡ فِيهَاۖ وَٱللَّهُ مُخۡرِجٞ مَّا كُنتُمۡ تَكۡتُمُونَ (72)
ترجمہ: اور جب تم نے ایک خون کیا تو ایک دوسرے پر اس کی تہمت ڈالنے لگے اور اللہ کو ظاہر کرنا تھا جو تم چھپاتے تھے ،
فَقُلۡنَا ٱضۡرِبُوهُ بِبَعۡضِهَاۚ كَذَٰلِكَ يُحۡيِ ٱللَّهُ ٱلۡمَوۡتَىٰ وَيُرِيكُمۡ ءَايَٰتِهِۦ لَعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُونَ (73)
ترجمہ: تو ہم نے فرمایا اس مقتول کو اس گائے کا ایک ٹکڑا مارو اللہ یونہی مُردے جلائے گا۔ اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے کہ کہیں تمہیں عقل ہو
ثُمَّ قَسَتۡ قُلُوبُكُم مِّنۢ بَعۡدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَٱلۡحِجَارَةِ أَوۡ أَشَدُّ قَسۡوَةٗۚ وَإِنَّ مِنَ ٱلۡحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنۡهُ ٱلۡأَنۡهَٰرُۚ وَإِنَّ مِنۡهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخۡرُجُ مِنۡهُ ٱلۡمَآءُۚ وَإِنَّ مِنۡهَا لَمَا يَهۡبِطُ مِنۡ خَشۡيَةِ ٱللَّهِۗ وَمَا ٱللَّهُ بِغَٰفِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُونَ (74)
ترجمہ: پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے تو وہ پتھروں کی مثل ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ کرّے اور پتھروں میں تو کچھ وہ ہیں جن سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں اور کچھ وہ ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکلتا ہے اور کچھ وہ ہیں جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں اور اللہ تمہارے کوتکوں سے بے خبر نہیں ،
أَفَتَطۡمَعُونَ أَن يُؤۡمِنُواْ لَكُمۡ وَقَدۡ كَانَ فَرِيقٞ مِّنۡهُمۡ يَسۡمَعُونَ كَلَٰمَ ٱللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُۥ مِنۢ بَعۡدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمۡ يَعۡلَمُونَ (75)
ترجمہ: تو اے مسلمانو! کیا تمہیں یہ طمع ہے کہ یہ (یہودی) تمہارا یقین لائیں گے اور ان میں کا تو ایک گروہ وہ تھا کہ اللہ کا کلام سنتے پھر سمجھنے کے بعد اسے دانستہ بدل دیتے ،
یہ بھی ہڑھیں: فرمان الٰہی: بنی اسرائیل کا 'بقرۃ' ذبحہ کرنے کا دلچسپ واقعہ جس سے سورت کا نام منسوب، سورہ بقرہ کی آیات 65 تا 70 کا مطالعہ