- بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
وَإِذَا قِيلَ لَهُمۡ ءَامِنُواْ بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ قَالُواْ نُؤۡمِنُ بِمَآ أُنزِلَ عَلَيۡنَا وَيَكۡفُرُونَ بِمَا وَرَآءَهُۥ وَهُوَ ٱلۡحَقُّ مُصَدِّقٗا لِّمَا مَعَهُمۡۗ قُلۡ فَلِمَ تَقۡتُلُونَ أَنۢبِيَآءَ ٱللَّهِ مِن قَبۡلُ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ (91)
ترجمہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم ایمان لاؤ ان (تمام) کتابوں پر جو اللہ تعالیٰ نے (متعدد پیغمبروں پر) نازل فرمائی ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو صرف) اس (ہی) کتاب پر ایمان لاویں گے جو ہم پر نازل کی گئی ہے (یعنی توریت) اور جتنی اس کے علاوہ ہیں ان (سب) کا انکار کرتے ہیں حالانکہ وہ بھی حق ہیں اور تصدیق کرنیوالی بھی ہیں اس کی جو ان کے پاس ہے (تورات کی) آپ پ کہیے کہ (اچھا تو) پھر کیوں قتل کیا کرتے تھے اللہ کے پیغمبروں کو اس کے قبل کے زمانہ میں اگر تم (توراۃ پر) ایمان رکھنے والے تھے۔
وَلَقَدۡ جَآءَكُم مُّوسَىٰ بِٱلۡبَيِّنَٰتِ ثُمَّ ٱتَّخَذۡتُمُ ٱلۡعِجۡلَ مِنۢ بَعۡدِهِۦ وَأَنتُمۡ ظَٰلِمُونَ (92)
اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تم لوگوں کے پاس صاف صاف دلیلیں لائے (مگر) اس پر بھی تم لوگوں نے گوسالہ کو (معبود) تجویز کر لیا موسیٰ (علیہ السلام) کے (طور پر جانے کے) بعد اور تم ستم ڈھا رہے تھے۔
1- بینات سے مراد وہ دلائل ہیں جو اس قصہ سے پہلے کہ اس وقت تک تورات نہ ملی تھی صدق موسیٰ پر قائم ہو چکی تھیں مثلا عصا اور ید بیضاء اور فلق بحر و غیر ذالک۔
وَإِذۡ أَخَذۡنَا مِيثَٰقَكُمۡ وَرَفَعۡنَا فَوۡقَكُمُ ٱلطُّورَ خُذُواْ مَآ ءَاتَيۡنَٰكُم بِقُوَّةٖ وَٱسۡمَعُواْۖ قَالُواْ سَمِعۡنَا وَعَصَيۡنَا وَأُشۡرِبُواْ فِي قُلُوبِهِمُ ٱلۡعِجۡلَ بِكُفۡرِهِمۡۚ قُلۡ بِئۡسَمَا يَأۡمُرُكُم بِهِۦٓ إِيمَٰنُكُمۡ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ (93)
ترجمہ: اور جب ہم نے تمہارا قول و قرار لیا تھا اور طور کو تمہارے (سروں کے) اوپر لاکھڑا کیا تھا لو جو کچھ (احکام) ہم تم کو دیتے ہیں ہمت ( اور پختگی) کے ساتھ اور سنو اس وقت انہوں نے زبان سے کہہ دیا کہ ہم نے سن لیا اور اور ہم سے عمل نہ ہوگا اور (وجہ اس کی یہ ہے کہ) ان کے قلوب میں وہی گوسالہ پیوست ہو گیا تھا ان کے کفر (سابق) کی وجہ سے فرما دیجیے کہ یہ افعال بہت برے ہیں جن کی تعلیم تمہارا ایمان تم کو کر رہا ہے اگر تم اہل ایمان ہو۔
قُلۡ إِن كَانَتۡ لَكُمُ ٱلدَّارُ ٱلۡأٓخِرَةُ عِندَ ٱللَّهِ خَالِصَةٗ مِّن دُونِ ٱلنَّاسِ فَتَمَنَّوُاْ ٱلۡمَوۡتَ إِن كُنتُمۡ صَٰدِقِينَ (94)
ترجمہ: آپ کہہ دیجیے کہ اگر (بقول تمھارے) عالم آخرت اللہ کے نزدیک محض تمہارے ہی لیے نافع ہے بلا شرکت غیرے تو تم (اس کی تصدیق کے لیے ذرا) موت کی تمنا کر (کے دکھلا) دو اگر تم سچے ہو۔
وَلَن يَتَمَنَّوۡهُ أَبَدَۢا بِمَا قَدَّمَتۡ أَيۡدِيهِمۡۚ وَٱللَّهُ عَلِيمُۢ بِٱلظَّٰلِمِينَ (95)
ترجمہ:اور وہ ہرگز کبھی اس (موت) کی تمنا نہ کریں گے بوجہ (خوف سزا) ان اعمال (کفریہ) جو اپنے ہاتھوں سمیٹے ہیں اور حق تعالی کو خوب اطلاع ہے ظالموں (کے حال) کی۔
- تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)
وَإِذَا قِيلَ لَهُمۡ ءَامِنُواْ بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ قَالُواْ نُؤۡمِنُ بِمَآ أُنزِلَ عَلَيۡنَا وَيَكۡفُرُونَ بِمَا وَرَآءَهُۥ وَهُوَ ٱلۡحَقُّ مُصَدِّقٗا لِّمَا مَعَهُمۡۗ قُلۡ فَلِمَ تَقۡتُلُونَ أَنۢبِيَآءَ ٱللَّهِ مِن قَبۡلُ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ (91)
ترجمہ:جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ، تو وہ کہتے ہیں "ہم تو صرف اُس چیز پر ایمان لاتے ہیں، جو ہمارے ہاں (یعنی نسل اسرائیل) میں اتری ہے" اس دائرے کے باہر جو کچھ آیا ہے، اسے ماننے سے وہ انکار کرتے ہیں، حالانکہ وہ حق ہے اور اس تعلیم کی تصدیق و تائید کر رہا ہے تھی اچھا، ان سے جو ان کے ہاں پہلے . سے موجود کہو: اگر تم اس تعلیم ہی پر ایمان رکھنے والے ہو جو تمہارے ہاں آئی تھی، تو اس سے پہلے اللہ کے اُن پیغمبروں کو (جو خود بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے تھے) کیوں قتل کرتے رہے؟
وَلَقَدۡ جَآءَكُم مُّوسَىٰ بِٱلۡبَيِّنَٰتِ ثُمَّ ٱتَّخَذۡتُمُ ٱلۡعِجۡلَ مِنۢ بَعۡدِهِۦ وَأَنتُمۡ ظَٰلِمُونَ (92)
ترجمہ:تمہارے پاس موسی کیسی کیسی روشن نشانیوں کے ساتھ آیا پھر بھی تم ایسے ظالم تھے کہ اس کے پیٹھ موڑتے ہی بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے۔