- بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
أُوْلَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ ٱشۡتَرَوُاْ ٱلۡحَيَوٰةَ ٱلدُّنۡيَا بِٱلۡأٓخِرَةِۖ فَلَا يُخَفَّفُ عَنۡهُمُ ٱلۡعَذَابُ وَلَا هُمۡ يُنصَرُونَ (86)
ترجمہ: 'یہ وہ لوگ ہیں کہ انہوں نے دنیوی زندگانی (کے حظوظ) کو لے لیا ہے بعوض (نجات) آخرت کے سو نہ تو ان کی سزا میں (کچھ) تخفیف کی جاویگی اور نہ کوئی ان کی طرفداری (پیروی) کرنے پاوے گا۔'
وَلَقَدۡ ءَاتَيۡنَا مُوسَى ٱلۡكِتَٰبَ وَقَفَّيۡنَا مِنۢ بَعۡدِهِۦ بِٱلرُّسُلِۖ وَءَاتَيۡنَا عِيسَى ٱبۡنَ مَرۡيَمَ ٱلۡبَيِّنَٰتِ وَأَيَّدۡنَٰهُ بِرُوحِ ٱلۡقُدُسِۗ أَفَكُلَّمَا جَآءَكُمۡ رَسُولُۢ بِمَا لَا تَهۡوَىٰٓ أَنفُسُكُمُ ٱسۡتَكۡبَرۡتُمۡ فَفَرِيقٗا كَذَّبۡتُمۡ وَفَرِيقٗا تَقۡتُلُونَ (87)
ترجمہ: 'اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب (توریت) دی اور (پھر) ان کے بعد یکے بعد دیگرے پیغمبروں کو بھیجتے رہے اور (پھر) ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو (نبوت کے) واضح دلائل عطا فرمائے اور ہم نے ان کو روح القدس سے تائید دی کیا جب کبھی (بھی) کوئی پیغمبر تمہارے پاس ایسے احکام لائے جن کو تمہارا دل نہ چاہتا تھا (جب ہی) تم نے تکبر کرنا شروع کر دیا سو بعضوں کو تم نے جھوٹا بتلایا اور بعضوں کو (بے دھڑک) قتل ہی کر ڈالتے تھے۔'
وَقَالُواْ قُلُوبُنَا غُلۡفُۢۚ بَل لَّعَنَهُمُ ٱللَّهُ بِكُفۡرِهِمۡ فَقَلِيلٗا مَّا يُؤۡمِنُونَ (88)
ترجمہ: 'اور وہ (یہودی افتخارا) کہتے ہیں کہ ہمارے قلوب محفوظ ہیں بلکہ ان کے کفر کے سبب ان پر خدا کی مار ہے سو بہت ہی تھوڑا سا ایمان رکھتے ہیں۔'
وَلَمَّا جَآءَهُمۡ كِتَٰبٞ مِّنۡ عِندِ ٱللَّهِ مُصَدِّقٞ لِّمَا مَعَهُمۡ وَكَانُواْ مِن قَبۡلُ يَسۡتَفۡتِحُونَ عَلَى ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ فَلَمَّا جَآءَهُم مَّا عَرَفُواْ كَفَرُواْ بِهِۦۚ فَلَعۡنَةُ ٱللَّهِ عَلَى ٱلۡكَٰفِرِينَ (89)
ترجمہ: 'اور جب ان کو ایسی کتاب پہنچی (یعنی قرآن) جو منجانب اللہ ہے ( اور ) اس کی (بھی) تصدیق کرنے والی ہے جو پہلے سے) ان کے پاس ہے (یعنی توریت) حالانکہ اس کے قبل وہ (خود) بیان کیا کرتے تھے کفار سے پھر جب وہ چیز آپہنچی جس کو وہ (خوب جانتے) پہنچانتے ہیں تو اس کا (صاف) انکار کر بیٹھے سو (بس) خدا کی مار ہو ایسے منکروں پر۔'
بِئۡسَمَا ٱشۡتَرَوۡاْ بِهِۦٓ أَنفُسَهُمۡ أَن يَكۡفُرُواْ بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ بَغۡيًا أَن يُنَزِّلَ ٱللَّهُ مِن فَضۡلِهِۦ عَلَىٰ مَن يَشَآءُ مِنۡ عِبَادِهِۦۖ فَبَآءُو بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٖۚ وَلِلۡكَٰفِرِينَ عَذَابٞ مُّهِينٞ (90)
ترجمہ: 'وہ حالت (بہت ہی بری) ہے جس کو اختیار کر کے وہ اپنی جانوں کو چھڑانا چاہتے ہیں (اور وہ حالت) یہ (ہے) کہ کفر کرتے ہیں ایسی چیز کا جو حق تعالی نے نازل فرمائی محض (اسی) ضد پر کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جس بندہ پر اس کو منظور ہو نازل فرمادے سو وہ لوگ غضب بالائے غضب کے مستحق ہو گئے اور ان کفر کرنے والوں کو سزا ہوگی جس میں (ذلت) بھی ہے۔' (2)
2 - ایک غضب تو کفر پر تھا ہی دوسرا غضب ان کے حسد پر ہو گیا۔ اور عذاب مھین کی قید سے تخصیص کفار کی ہو گئی کیونکہ مومن عاصی کو عذاب تطہیر عن الذنوب کا ہوگا۔
- تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
أُوْلَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ ٱشۡتَرَوُاْ ٱلۡحَيَوٰةَ ٱلدُّنۡيَا بِٱلۡأٓخِرَةِۖ فَلَا يُخَفَّفُ عَنۡهُمُ ٱلۡعَذَابُ وَلَا هُمۡ يُنصَرُونَ (86)
ترجمہ: 'یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت بیچ کر دنیا کی زندگی خرید لی ہے، لہٰذا نہ ان کی سزا میں کوئی تخفیف ہوگی اور نہ انہیں کوئی مدد پہنچ سکے گی'
وَلَقَدۡ ءَاتَيۡنَا مُوسَى ٱلۡكِتَٰبَ وَقَفَّيۡنَا مِنۢ بَعۡدِهِۦ بِٱلرُّسُلِۖ وَءَاتَيۡنَا عِيسَى ٱبۡنَ مَرۡيَمَ ٱلۡبَيِّنَٰتِ وَأَيَّدۡنَٰهُ بِرُوحِ ٱلۡقُدُسِۗ أَفَكُلَّمَا جَآءَكُمۡ رَسُولُۢ بِمَا لَا تَهۡوَىٰٓ أَنفُسُكُمُ ٱسۡتَكۡبَرۡتُمۡ فَفَرِيقٗا كَذَّبۡتُمۡ وَفَرِيقٗا تَقۡتُلُونَ (87)
ترجمہ: 'ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، اس کے بعد پے در پے رسُول بھیجے، آخر کار عیسی ابن مریم کو روشن نشانیاں دے کر بھیجا اور روحِ پاک سے اس کی مدد کی۔ 93 پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا، تو تم نے اس کے مقابلے میں سر کشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا!'
93- روح پاک “ سے مراد علم وحی بھی ہے، اور جبریل بھی جو وحی کا علم لاتے تھے اور خود حضرت مسیح (ع) کی اپنی پاکیزہ روح بھی، جس کو اللہ نے قدسی صفات بنایا تھا۔ ” روشن نشانیوں “ سے مراد وہ کھلی کھلی علامات ہیں، جنہیں دیکھ کر ہر صداقت پسند طالب حق انسان یہ جان سکتا تھا کہ مسیح اللہ کے نبی ہیں۔
وَقَالُواْ قُلُوبُنَا غُلۡفُۢۚ بَل لَّعَنَهُمُ ٱللَّهُ بِكُفۡرِهِمۡ فَقَلِيلٗا مَّا يُؤۡمِنُونَ (88)
ترجمہ: 'وہ کہتے ہیں، تمہارے دل محفوظ ہیں ۔ نہیں 94 ، اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہے، اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں'
94- یعنی ہم اپنے عقیدہ و خیال میں اتنے پختہ ہیں کہ تم خواہ کچھ کہو، ہمارے دلوں پر تمہاری بات کا اثر نہ ہوگا۔ یہ وہی بات ہے جو تمام ایسے ہٹ دھرم لوگ کہا کرتے ہیں جن کے دل و دماغ پر جاہلانہ تعصب کا تسلط ہوتا ہے۔ وہ اسے عقیدے کی مضبوطی کا نام دے کر ایک خوبی شمار کرتے ہیں، حالانکہ اس سے بڑھ کر آدمی کے لیے کوئی عیب نہیں ہے کہ وہ اپنے موروثی عقائد و افکار پر جم جانے کا فیصلہ کرلے، خواہ ان کا غلط ہونا کیسے ہی قوی دلائل سے ثابت کر دیا جائے۔
وَلَمَّا جَآءَهُمۡ كِتَٰبٞ مِّنۡ عِندِ ٱللَّهِ مُصَدِّقٞ لِّمَا مَعَهُمۡ وَكَانُواْ مِن قَبۡلُ يَسۡتَفۡتِحُونَ عَلَى ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ فَلَمَّا جَآءَهُم مَّا عَرَفُواْ كَفَرُواْ بِهِۦۚ فَلَعۡنَةُ ٱللَّهِ عَلَى ٱلۡكَٰفِرِينَ (89)
ترجمہ: 'اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے، اس کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہے؟ باوجود یہ کہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی ، باوجود یہ کہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے، مگر جب وہ چیز آگئی جسے وہ پہچان بھی گئے، تو انھوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔ 95 خدا کی لعنت ان منکرین پر'
95: نبی السلام کی آمد سے پہلے یہودی بے چینی کے ساتھ اس نبی کے منتظر تھے جس کی بعثت کی پیشین گوئیاں ان کے انبیا نے کی تھیں۔ دُعائیں مانگا کرتے تھے کہ جلدی سے وہ آئے تو کفار کا غلبہ مٹے اور پھر ہمارے عروج کا دور شروع ہو۔ خود اہل مدینہ اس بات کے شاہد تھے کہ بعثت محمدی علیہ السلام سے پہلے یہی ان کے ہمسایہ یہودی آنے والے نبی کی اُمید پر جیا کرتے تھے اور ان کا آئے دن کا تکیہ کلام یہی تھا کہ ” اچھا، اب تو جس جس کا جی چاہے ہم پر ظلم کرلے، جب وہ نبی آئے گا تو ہم ان سب ظالموں کو دیکھ لیں گے۔ “ اہل مدینہ یہ باتیں سنے ہوئے تھے، اسی لیے جب انہیں نبی طال السلام کے حالات معلوم ہوئے تو انہوں نے آپس میں کہا کہ دیکھنا، کہیں یہ یہودی تم سے بازی نہ لے جائیں۔ چلو، پہلے ہم ہی اس نبی پر ایمان لے آئیں۔ مگر ان کے لیے یہ عجیب ماجرا تھا کہ وہی یہودی، جو آنے والے نبی کے انتظار میں گھڑیاں گن رہے تھے، اس کے آنے پر سب سے بڑھ کر اس کے مخالف بن گئے۔ اور یہ جو فرمایا کہ ” وہ اس کو پہچان بھی گئے “ ، تو اس کے متعدد ثبوت اسی زمانے میں مل گئے تھے۔ سب سے زیادہ معتبر شہادت ام المومنین حضرت صفیہ کی ہے، جو خود ایک بڑے یہودی عالم کی بیٹی اور ایک دوسرے عالم کی بھتیجی تھیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی طلال السلام مدینے تشریف لائے، تو میرے باپ اور چچا دونوں آپ لی ہم سے ملنے گئے۔ بڑی دیر تک آپ سے گفتگو کی۔ پھر جب گھر واپس آئے، تو میں نے اپنے کانوں سے ان دونوں کو یہ گفتگو کرتے سنا
چچا کیا واقعی یہ وہی نبی ہے، جس کی خبریں ہماری کتابوں میں دی گئی ہیں ؟
والد خدا کی قسم، ہاں۔
چا کیا تم کو اس کا یقین ہے ؟
والد ہاں۔
چا پھر کیا ارادہ ہے ؟
والد جب تک جان میں جان ہے اس کی مخالفت کروں گا اور
اس کی بات چلنے نہ دوں گا۔
( ابن ہشام۔ جلد دوم۔ صفحہ ١٦٥ ، طبع جدید)
بِئۡسَمَا ٱشۡتَرَوۡاْ بِهِۦٓ أَنفُسَهُمۡ أَن يَكۡفُرُواْ بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ بَغۡيًا أَن يُنَزِّلَ ٱللَّهُ مِن فَضۡلِهِۦ عَلَىٰ مَن يَشَآءُ مِنۡ عِبَادِهِۦۖ فَبَآءُو بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٖۚ وَلِلۡكَٰفِرِينَ عَذَابٞ مُّهِينٞ (90)
ترجمہ: 'کیسا برا ذریعہ ہے جس سے یہ اپنے نفس کی تسلی حاصل کرتے ہیں 96 کہ جو ہدایت اللہ نے نازل کی ہے، اس کو قبول کرنے سے صرف اس ضد کی بنا پر انکار کر رہے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل وحی و رسالت سے اپنے جس بندے کو خود چاہا، نواز دیا ! 97 لہٰذا اب یہ غضب بالائے غضب کے مستحق ہو گئے ہیں اور ایسے کافروں کیلئے سخت ذلت آمیز سزا مقرر ہے'
96- اس آیت کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے " کیسی بری چیز ہے، جس کی خاطر انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا۔ “ یعنی فلاح وسعادت اور اپنی نجات کو قربان کر دیا۔
97- یہ لوگ چاہتے تھے کہ آنے والا نبی ان کی قوم میں پیدا ہو۔ مگر جب وہ ایک دوسری قوم میں پیدا ہوا، جسے وہ اپنے مقابلے میں بیچ سمجھتے تھے، تو وہ اس کے انکار پر آمادہ ہو گئے۔ گویا ان کا مطلب یہ تھا کہ اللہ ان سے پوچھ کر نبی بھیجتا جب اس نے ان سے نہ پوچھا اور اپنے فضل سے خود جسے چاہا، نواز دیا، تو وہ بگڑ بیٹھے۔
- کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
أُوْلَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ ٱشۡتَرَوُاْ ٱلۡحَيَوٰةَ ٱلدُّنۡيَا بِٱلۡأٓخِرَةِۖ فَلَا يُخَفَّفُ عَنۡهُمُ ٱلۡعَذَابُ وَلَا هُمۡ يُنصَرُونَ (86)
ترجمہ: 'یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی مول لی تو نہ ان پر سے عذاب ہلکا ہو اور نہ ان کی مدد کی جائے۔'
وَلَقَدۡ ءَاتَيۡنَا مُوسَى ٱلۡكِتَٰبَ وَقَفَّيۡنَا مِنۢ بَعۡدِهِۦ بِٱلرُّسُلِۖ وَءَاتَيۡنَا عِيسَى ٱبۡنَ مَرۡيَمَ ٱلۡبَيِّنَٰتِ وَأَيَّدۡنَٰهُ بِرُوحِ ٱلۡقُدُسِۗ أَفَكُلَّمَا جَآءَكُمۡ رَسُولُۢ بِمَا لَا تَهۡوَىٰٓ أَنفُسُكُمُ ٱسۡتَكۡبَرۡتُمۡ فَفَرِيقٗا كَذَّبۡتُمۡ وَفَرِيقٗا تَقۡتُلُونَ (87)
ترجمہ: 'اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھیلی نشانیاں عطا فرمائیں اور پاک روح سے اس کی مدد کی تو کیا جب تمہارے پاس کوئی رسول وہ لے کر آئے جو تمہارے نفس کی خواہش نہیں تکبر کرتے ہو تو ان (انبیاء) میں ایک گروہ کو تم جھٹلاتے ہو اور ایک گروہ کو شہید کرتے ہو۔'
وَقَالُواْ قُلُوبُنَا غُلۡفُۢۚ بَل لَّعَنَهُمُ ٱللَّهُ بِكُفۡرِهِمۡ فَقَلِيلٗا مَّا يُؤۡمِنُونَ (88)
ترجمہ: 'اور یہودی بولے ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہیں بلکہ اللہ نے ان پر لعنت کی ان کے کفر کے سبب تو ان میں تھوڑے ایمان لاتے ہیں۔'
وَلَمَّا جَآءَهُمۡ كِتَٰبٞ مِّنۡ عِندِ ٱللَّهِ مُصَدِّقٞ لِّمَا مَعَهُمۡ وَكَانُواْ مِن قَبۡلُ يَسۡتَفۡتِحُونَ عَلَى ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ فَلَمَّا جَآءَهُم مَّا عَرَفُواْ كَفَرُواْ بِهِۦۚ فَلَعۡنَةُ ٱللَّهِ عَلَى ٱلۡكَٰفِرِينَ (89)
ترجمہ: 'اور جب ان کے پاس اللہ کی وہ کتاب (قرآن) آئی جو ان کے ساتھ وا لی کتاب (توریت) کی تصدیق فرماتی ہے اور اس سے پہلے وہ اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب تشریف لایا انکے پاس وہ جانا پہچانا اس سے منکر ہو بیٹھے تو اللہ کی لعنت منکروں پر۔'
بِئۡسَمَا ٱشۡتَرَوۡاْ بِهِۦٓ أَنفُسَهُمۡ أَن يَكۡفُرُواْ بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ بَغۡيًا أَن يُنَزِّلَ ٱللَّهُ مِن فَضۡلِهِۦ عَلَىٰ مَن يَشَآءُ مِنۡ عِبَادِهِۦۖ فَبَآءُو بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٖۚ وَلِلۡكَٰفِرِينَ عَذَابٞ مُّهِينٞ (90)
ترجمہ: 'کس برے مولوں انہوں نے اپنی جانوں کو خریدا کہ اللہ کے اتارے سے منکر ہوں اس کی جلن سے کہ اللہ اپنے فضل سے اپنے جس بندے پر چاہے وحی اتار لے تو غضب پر غضب کے سزاوار ہوئے اور کافروں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔'
یہ بھی پڑھیں:
فرمان الٰہی: بنی اسرائیل کا اللہ سے عہد و پیمان اور اس کی خلاف ورزی، قرآن کی پانچ آیات(81-85) کا یومیہ مطالعہ