- بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
وَمَثَلُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ كَمَثَلِ ٱلَّذِي يَنۡعِقُ بِمَا لَا يَسۡمَعُ إِلَّا دُعَآءٗ وَنِدَآءٗۚ صُمُّۢ بُكۡمٌ عُمۡيٞ فَهُمۡ لَا يَعۡقِلُونَ (171)
ترجمہ:اور ان کافروں کی کیفیت (نافہمی میں) اس (جانور کی) کیفیت کی مثل ہے کہ ایک شخص ہے وہ ایسے (جانور) کے پیچھے چلا رہا ہے جو بجز بلانے اور پکارنے کی کوئی بات نہیں سنتا (اسی طرح یہ کفار) بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں سو سمجھتے کچھ نہیں۔
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَٰتِ مَا رَزَقۡنَٰكُمۡ وَٱشۡكُرُواْ لِلَّهِ إِن كُنتُمۡ إِيَّاهُ تَعۡبُدُونَ (172)
ترجمہ:اے ایمان والو جو (شرع کی رو سے) پاک چیزیں ہم نے تم کو مرحمت فرمائی ہیں ان میں سے (جو چاہو) کھاؤ (برتو) اور حق تعالیٰ کی شکر گزاری کرو اگر تم خاص ان کے ساتھ غلامی کا تعلق رکھتے ہو۔
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيۡكُمُ ٱلۡمَيۡتَةَ وَٱلدَّمَ وَلَحۡمَ ٱلۡخِنزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ بِهِۦ لِغَيۡرِ ٱللَّهِۖ فَمَنِ ٱضۡطُرَّ غَيۡرَ بَاغٖ وَلَا عَادٖ فَلَآ إِثۡمَ عَلَيۡهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٞ رَّحِيمٌ (173)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے تم پر صرف حرام کیا ہے مردار (3) کو اور خون کو (جو بہتا ہو) اور خنزیر کے گوشت کو (اسی طرح اس کے سب اجزاء کو بھی) ایسے جانور کو جو (بقصد تقرب) غیر اللہ کے نامزد کردیا گیا ہو۔ (4) پھر بھی جو شخص (بھوک سے بہت ہی) بیتاب ہوجاوے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ (قدر حاجت سے) تجاوز کرنے والا ہو تو اس شحص پر کچھ گناہ نہیں ہوتا واقعی اللہ تعالیٰ ہیں بڑے غفوررحیم۔
3 - اس مقام کے متعلق چند مسائل فقیہ ہیں۔ 1 ۔ جس جانور کا ذبح کرنا شرعا ضروری ہو اور وہ بلا ذبح ہلاک ہو جاوئے وہ حرام ہوتا ہے اور جس جانور کا ذبح کرنا ضروری نہیں وہ دو طرح کے ہیں ایک ٹڑی اور ایک مچھلی۔ دوسرے وحشی جیسے ہرن وغیرہ۔ جب کہ اس کے ذبح پر قدرت نہ ہوئے تو اس کو دور ہی سے تیر یا اور کسی تیز ہتھیار سے اگر بسم اللہ کہہ کر زخمی کیا جائے تو حلال ہو جاتا ہے البتہ بندوق کا شکار بدون ذبح کیے ہوئے حلال نہیں کیونکہ گولی میں دھار نہیں ہوتی۔ 2 ۔ خون جو بہتا نہ ہو اس سے دو چیزیں مراد ہیں جگر اور طحال۔ حلال ہیں۔ 3 ۔ خنزیر کے سب اجزاء لحم و شحم و و پوست یہ و اعصاب سب حرام ہیں، اور نجس بھی ہیں۔
4 ۔ جس جانور کو غیر اللہ کے نامز اس نیت سے کر دیا ہو کہ وہ ہم سے خوش ہوں گے اور ہماری کاروائی کر دیں گے وہ حرام ہو جاتا ہے اگر ذبح کے وقت اس پر اللہ کا نام لیا ہو۔ اور محرمات حسیہ کا ذکر تھا۔
إِنَّ ٱلَّذِينَ يَكۡتُمُونَ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلۡكِتَٰبِ وَيَشۡتَرُونَ بِهِۦ ثَمَنٗا قَلِيلًا أُوْلَٰٓئِكَ مَا يَأۡكُلُونَ فِي بُطُونِهِمۡ إِلَّا ٱلنَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ ٱللَّهُ يَوۡمَ ٱلۡقِيَٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمۡ وَلَهُمۡ عَذَابٌ أَلِيمٌ (174)
ترجمہ:اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی کتاب (کے مضامین) کا اخفا کرتے ہیں اور اس کے معاوضہ میں (دنیا کا) متاع قلیل وصول کرتے ہیں ایسے لوگ اور کچھ نہیں اپنے شکم میں آگ (کے انگارے) بھر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے نہ تو قیامت میں (لطف کے ساتھ) کلام کرینگے اور نہ (گناہ معاف کرکے) ان کی صفائی کریں گے اور ان کو سزائے دردناک ہوگی۔ (5)
5- اس آیت میں محرم معنوی کا بیان ہے جو عادت تھی علما یہود کی احکام غلط بیان کر کے عوام سے رشوت لیتے اور کھاتے تھے نیز اس میں تعلیم ہے علماء امت محمدیہ کو کہ ہم نے جو کچھ احکام بیان فرمائے ہیں کسی نفسیاتی غرض اور منفعت سے ان کے بیان و تبلیغ میں کوتاہی مت کرنا۔
أُوْلَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ ٱشۡتَرَوُاْ ٱلضَّلَٰلَةَ بِٱلۡهُدَىٰ وَٱلۡعَذَابَ بِٱلۡمَغۡفِرَةِۚ فَمَآ أَصۡبَرَهُمۡ عَلَى ٱلنَّارِ (175)
ترجمہ:یہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے (دنیا میں تو) ہدایت چھوڑ کر ضلالت اختیار کی اور (آخرت میں) مغفرت چھوڑ کر عذاب (سر پر لیا) سو دوذخ کے لیے کیسے باہمت ہیں۔
- تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
وَمَثَلُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ كَمَثَلِ ٱلَّذِي يَنۡعِقُ بِمَا لَا يَسۡمَعُ إِلَّا دُعَآءٗ وَنِدَآءٗۚ صُمُّۢ بُكۡمٌ عُمۡيٞ فَهُمۡ لَا يَعۡقِلُونَ (171)
ترجمہ:یہ لوگ جنہوں نے خدا کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے سے انکار کر دیا ہے اِن کی حالت بالکل ایسی ہے جیسے چرواہا جانوروں کو پکارتا ہے اور وہ ہانک پکار کی صدا کے سوا کچھ نہیں سنتے (169) یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، اس لیے کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔
169- اس تمثیل کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ ان لوگوں کی حالت ان بے عقل جانوروں کی سی ہے جن کے گلے اپنے اپنے چرواہوں کے پیچھے چلے جاتے ہیں اور بغیر سمجھے بوجھے ان کی صداؤں پر حرکت کرتے ہیں۔ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان کو دعوت و تبلیغ کرتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا جانوروں کو پکارا جا رہا ہے جو فقط آواز سنتے ہیں، مگر کچھ نہیں سمجھتے کہ کہنے والا ان سے کیا کہتا ہے۔ اللہ تعالی نے الفاظ ایسے جامع استعمال فرمائے ہیں کہ یہ دونوں پہلو ان کے تحت آجاتے ہیں۔
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَٰتِ مَا رَزَقۡنَٰكُمۡ وَٱشۡكُرُواْ لِلَّهِ إِن كُنتُمۡ إِيَّاهُ تَعۡبُدُونَ (172)
ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم حقیقت میں اللہ کی بندگی کرنے والے ہو تو جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں اُنہیں بے تکلف کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو۔ (170)
170- یعنی اگر تم ایمان لا کر صرف خدائی قانون کے پیرو بن چکے ہو، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے تو پھر وہ ساری چھوت چھات، اور زمانہ جاہلیت کی وہ ساری بندشیں اور پابندیاں توڑ ڈالو جو پنڈتوں اور پروہتوں نے، رہیوں اور پادریوں نے، جوگیوں اور راہبوں نے اور تمہارے باپ دادا نے قائم کی تھیں۔ جو کچھ خدا نے حرام کیا ہے اس سے تو ضرور بچو، مگر جن چیزوں کو خدا نے حلال کیا ہے انہیں بغیر کسی کراہت اور رکاوٹ کے کھاؤ پیو۔ اسی مضمون کی طرف نبی ملی علم کی وہ حدیث بھی اشارہ کرتی ہے جس میں آپ سلم نے فرمایا کہ من صلی صلوا تَنَا وَ اسْتَقْبَلَ قَبْلَتَنَا وَأَكل ذبيحتنا فذلك المسلم الخ یعنی جس نے وہی نماز پڑھی جو ہم پڑھتے ہیں اور اسی قبلے کی طرف رخ کیا جس کی طرف ہم رخ کرتے ہیں اور ہمارے ذبیحے کو کھایا وہ مسلمان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھنے اور قبلے کی طرف رخ کرنے کے باوجود ایک شخص اس وقت تک اسلام میں پوری طرح جذب نہیں ہوتا جب تک کہ وہ کھانے پینے کے معاملے میں پچھلی جاہلیت کی پابندیوں کو توڑ نہ دے اور ان تو ہمات کی بندشوں سے آزاد نہ ہو جائے جو اہل جاہلیت نے قائم کر رکھی تھیں۔ کیونکہ اس کا ان پابندیوں پر قائم رہنا اس بات کی علامت ہے کہ ابھی تک اس کی رگ و پے میں جاہلیت کا زہر موجود ہے۔