اس سورت کا نام 'البقرۃ' ہے۔ بقرۃ عربی زبان میں گائے کو بولتے ہیں۔ دراصل اس سورت میں گائے سے متعلق بنی اسرائیل کے ایک واقعے کا ذکر ہوا ہے، اسی مناسبت سے اس کا نام سورة البقرۃ رکھا گیا۔
مستدرک، جامع ترمذی اور تفسیر ابن کثیر میں درج ایک حدیث میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ 'ہر چیز کا ایک اعلی حصہ ہوتا ہے اور قرآن مجید کا اعلی حصہ سورة بقرہ ہے۔'
مضمون کے اعتبار سے اس سورت کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے حصے میں توحید و رسالت جیسے بنیادی عقائد پر روشنی ڈالتے ہوئے راہ ہدایت اختیار کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ جب کہ سورت کے دوسرے حصے میں بنی اسرائیل قوم کے احوال و واقعات کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کو ان فتنوں اور گمراہیوں سے بچنے اور ظاہر و باطن ہر لحاظ سے اپنی اصلاح کرنے کا حکم دیا گیا ہے، نیز اس میں ابتدائی طور پر جہاد فی سبیل اللہ کے لیے مومنین کی ذہن سازی کی گئی ہے۔
- سورہ بقرہ پر مفسرین کی آراء
بیان القرآن
سورہ فاتحہ سے اس سورت (بقرہ) کا ربط یہ ہے کہ اس میں راہ ہدایت کی درخواست کی گئی تھی اور اس میں اس درخواست کی منظوری ہے کہ یہ کتابِ ہدایت ہے، اس پر چلو۔ (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)
تفہیم القرآن
نام اور وجہ تسمیہ: اِس سُورۃ کا نام ” بقرۃ“ اِس لیے ہے کہ اس میں ایک جگہ گائے کا ذکر آیا ہے۔ قرآن کی ہر سورۃ میں اس قدر وسیع مضامین بیان ہوئے ہیں کہ ان کے لیے مضمون کے لحاظ سے جامع عنوانات تجویز نہیں کیے جاسکتے۔ عربی زبان اگرچہ اپنی لغت کے اعتبار سے نہایت مالدار ہے ، مگر بہر حال ہے تو انسانی زبان ہی۔ انسان جو زبانیں بھی بولتا ہے وہ اس قدر تنگ اور محدود ہیں کہ وہ ایسے الفاظ یا فقرے فراہم نہیں کر سکتیں جو ان وسیع مضامین کے لیےجامع عنوان بن سکتے ہوں۔ اِس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے قرآن کی بیشتر سُورتوں کے لیے عنوانات کے بجائے نام تجویز فرمائے جو محض علامت کا کام دیتے ہیں ۔ اس سُورۃ کو بقرہ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں گائے کے مسئلے پر بحث کی گئی ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ” وہ سورۃ جس میں گائے کا ذکر آیا ہے۔
زمانہ نزول: اِس سُورۃ کا بیشتر حصّہ ہجرت ِ مدینہ کے بعد مدنی زندگی کے بالکل ابتدائی دَور میں نازل ہوا ہے، اور کمتر حصّہ ایسا ہے جو بعد میں نازل ہوا اور مناسبت ِ مضمون کے لحاظ سے اس میں شامل کر دیا گیا ۔ حتیٰ کہ سُود کی ممانعت کے سلسلہ میں جو آیات نازل ہوئی ہیں وہ بھی اس میں شامل ہیں حالانکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی زندگی کے بالکل آخری زمانہ میں اُتری تھیں۔ سُورۃ کا خاتمہ جن آیات پر ہوا ہے وہ ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہو چکی تھیں مگر مضمون کی مناسبت سے ان کو بھی اِسی سُورۃ میں ضم کر دیا گیا ہے۔ (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)
کنز الایمان
یہ سورت (سورہ بقرہ) مدنی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا : مدینہ طیبہ میں سب سے پہلے یہی سورت نازل ہوئی سوائے آیت وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ “ کے کہ حج وداع میں بمقام مکہ مکرمہ نازل ہوئی۔ (خازن ) اس سورت میں 286 آیتیں، 40 رکوع، 6121 کلمے، 25500 حرف ہیں۔ (خازن) پہلے قرآن پاک میں سورتوں کے نام نہ لکھے جاتے تھے یہ طریقہ حجاج نے نکالا۔ ابن عربی کا قول ہے کہ سورہ بقر میں ہزار امر، ہزار نہی، ہزار حکم، ہزار خبریں ہیں، اس کے آخر میں برکت، ترک میں حسرت ہے، اہل باطل جادوگر اس کی استطاعت نہیں رکھتے، جس گھر میں یہ سورت پڑھی جائے تین دن تک سرکش شیطان اس میں داخل نہیں ہوتا۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں یہ سورت پڑھی جائے۔ (جمل) بیہقی وسعید بن منصور نے حضرت مغیرہ سے روایت کی کہ جو شخص سوتے وقت سورۂ بقرہ کی دس آیتیں پڑھے گا قرآن شریف کو نہ بھولے گا ، وہ آیتیں یہ ہیں : چار آیتیں اول کی اور آیت الکرسی اور دو اس کے بعد کی، اور تین آخر سورت کی ۔ مسئلہ: طبرانی و بیہقی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ حضور علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا: میت کو دفن کر کے قبر کے سرہانے سورۂ بقر کے اول کی آیتیں اور پاؤں کی طرف آخر کی آیتیں پڑھو۔ شان نزول : اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے ایک ایسی کتاب نازل فرمانے کا وعدہ فرمایا تھا جو نہ پانی سے دھو کر مٹائی جا سکے نہ پرانی ہو، جب قرآن پاک نازل ہوا تو فرمایا: ذلک الكتب “ کہ وہ کتاب موعود ( جس کا وعدہ کیا گیا تھا یہ ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل سے ایک کتاب نازل فرمانے اور بنی اسمعیل میں سے ایک رسول بھیجنے کا وعدہ فرمایا تھا جب حضور نے مدینہ طیبہ کو ہجرت فرمائی جہاں یہود بکثرت تھے تو الله نے ''ذلك الكتب'' نازل فرما کر اس وعدے کے پورے ہونے کی خبر دی۔ (اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی)
منہاج القرآن
اس سورت کا نام "البقرة " ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سورت کے آٹھویں رکوع میں بنی اسرائیل کے ذکر کے ذیل میں ایک گائے ذبح کرنے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ جس کا آغاز یوں ہوتا ہے:۔ وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَة (اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا۔ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم ایک گائے ذبح کرو۔)
قابل غور امر یہ ہے کہ اس سورت میں اس واقعے کے علاوہ کئی اور اہم امور کا بھی ذکر ہے لیکن اس حکم کو بطورِ خاص سورت کے نام کے تعین کے لیے منتخب کرنا نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس سورت میں زیادہ ترینی اسرائیل اور یہود کا ذکر کیا گیا ہے اور ان کی اعتقادی و عملی خرابیوں کی نشاندہی کر کے اصلاح کی راہ تجویز کی گئی ہے۔ کیونکہ یہ سورت ہجرتِ مدینہ کے بعد نازل ہونے والی سب سے پہلی ہے۔ یونہ ہے سورت ۔ رت تھی اور مدینہ میں یہود بکثرت رہائش پذیر تھے۔ اسلام اور اہل اسلام کو یہاں آکر سب سے پہلے انہی کے ساتھ معاملہ کرتا تھا۔ اس لیے ضروری تھا کہ ہجرت مدینہ کے بعد قرآن کے تبلیغی اور اصلاحی پیغام کے اولین مخاطب ہی قرار پاتے۔ چنانچہ ان کی اعتقادی و عملی اصلاح کی بات ان کے تاریخی پس منظر میں ہی کی جاسکتی تھی۔ یہود اور بنی اسرائیل کی تاریخ اس حقیقت پر شاہد تھی کہ ان میں گائے کی پرستش کا شرک مصر اور سینا کے قیام کے دوران رواج پاچکا تھا۔ جس نے ان کے عقیدہ توحید کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ لہذا ان کے اس مشرکانہ عقیدے کے رد کے لیے باری تعالیٰ نے انہیں گائے (جس کو وہ اپنا معبود تصور کرتے تھے) کے ذبح کرنے کا حکم فرمایا۔ تاکہ اپنے ذہنی تراشیدہ باطل معبود کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کر کے وہ حقیقت توحید کو سمجھنے کے اہل ہو سکیں۔ گائے ذبح کرنے کا یہ حکم اتفاقی یا حادثاتی امر نہ تھا بلکہ درس توحید کی سب سے بڑی بنیاد تھا۔ اس لیے اس سورت کا نام بھی اسی حوالے سے متعین کر دیا گیا۔ (ڈاکٹر محمد طاہر القادری)
مزید پڑھیں: فرمان الٰہی: سورہ فاتحہ کی اہمیت، معنیٰ و مفہوم