- بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
وَإِذۡ قُلۡتُمۡ يَٰمُوسَىٰ لَن نَّصۡبِرَ عَلَىٰ طَعَامٖ وَٰحِدٖ فَٱدۡعُ لَنَا رَبَّكَ يُخۡرِجۡ لَنَا مِمَّا تُنۢبِتُ ٱلۡأَرۡضُ مِنۢ بَقۡلِهَا وَقِثَّآئِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَاۖ قَالَ أَتَسۡتَبۡدِلُونَ ٱلَّذِي هُوَ أَدۡنَىٰ بِٱلَّذِي هُوَ خَيۡرٌۚ ٱهۡبِطُواْ مِصۡرٗا فَإِنَّ لَكُم مَّا سَأَلۡتُمۡۗ وَضُرِبَتۡ عَلَيۡهِمُ ٱلذِّلَّةُ وَٱلۡمَسۡكَنَةُ وَبَآءُو بِغَضَبٖ مِّنَ ٱللَّهِۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمۡ كَانُواْ يَكۡفُرُونَ بِـَٔايَٰتِ ٱللَّهِ وَيَقۡتُلُونَ ٱلنَّبِيِّـۧنَ بِغَيۡرِ ٱلۡحَقِّۗ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَواْ وَّكَانُواْ يَعۡتَدُونَ (61)
ترجمہ: 'اور جب تم لوگوں نے (یوں) کہا کہ اے موسیٰ (روز کے روز) ہم ایک ہی قسم کے کھانے پر کبھی نہ رہیں گے آپ ہمارے واسطے اپنے پروردگار سے دعا کریں کہ وہ ہمارے لیے ایسی چیزیں پیدا کریں جو زمین میں اگا کرتی ہیں ساگ (ہوا) ککڑی (ہوئی) گیہوں (ہوا) مسور (ہوئی) پیاز (ہوئی) آپ نے فرمایا کیا تم عوض میں لینا چاہتے ہو ادنی درجہ کی چیز (وں) کو ایسی چیزوں کے مقابلہ میں جو اعلیٰ درجہ کی ہے کسی شہر میں (جاکر) اترو (وہاں) البتہ تم کو وہ چیزیں ملیں گی جن کی تم درخواست کرتے ہو اور جم گئی ان پر ذلت اور پستی (کہ دوسروں کی نگاہ میں قدر اور خود ان میں اولوالعزمی نہ رہی اور مستحق ہو گئے غضب الہی کے ( اور ) یہ اس وجہ سے (ہوا) کہ وہ لوگ منکر ہو جاتے تھے احکام الہیہ کے اور قتل کر دیا کرتے تھے پیغمبروں کو ناحق اور (نیز) یہ اس وجہ سے (ہوا) کہ ان لوگوں نے اطاعت نہ کی اور دائرہ اطاعت سے نکل نکل جاتے تھے۔' (2)
2 - منجملہ ذلت و مسکنت کے یہ بھی ہے کہ یہودیوں سے سلطنت قرب قیامت تک کے لیے چھین لی گئی۔
إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَٱلَّذِينَ هَادُواْ وَٱلنَّصَٰرَىٰ وَٱلصَّٰبِـِٔينَ مَنۡ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِ وَعَمِلَ صَٰلِحٗا فَلَهُمۡ أَجۡرُهُمۡ عِندَ رَبِّهِمۡ وَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُونَ (62)
ترجمہ: 'یہ تحقیقی بات ہے کہ مسلمان اور یہودی اور نصارے اور فرقہ صابئین (ان سب میں) جو شخص یقین رکھتا ہو اللہ تعالی کی ذات اور صفات پر اور روز قیامت پر اور کار گزاری اچھی کرے ایسوں کے لیے ان کا حق الخدمت بھی ہے ان کے پروردگار کے پاس اور (وہاں جاکر) کسی طرح کا اندیشہ نہیں ان پر اور نہ وہ مغموم ہوں گے۔' (3)
3 ۔ حاصل قانون کا ظاہر ہے کہ جو شخص پوری اطاعت اعتقاد اور اعمال میں اختیار کرے گا خواہ وہ پہلے سے کیسا ہی ہو ہمارے یہاں مقبول اور اس کی خدمت مشکور رہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جو مسلمان ہو جاوے گا مستحق اجر ونجات اخروی ہو گا۔
وَإِذۡ أَخَذۡنَا مِيثَٰقَكُمۡ وَرَفَعۡنَا فَوۡقَكُمُ ٱلطُّورَ خُذُواْ مَآ ءَاتَيۡنَٰكُم بِقُوَّةٖ وَٱذۡكُرُواْ مَا فِيهِ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُونَ (63)
ترجمہ: 'اور جب ہم نے تم سے قول و قرار لیا کہ توراۃ پر عمل کرینگے) ہم نے طور پہاڑ کو اٹھا کر تمہارے اوپر (محاذات میں) معلق کر دیا کہ (جلدی) قبول کرو جو (کتاب) ہم نے تم کو دی ہے مضبوطی کے ساتھ اور یاد رکھو جو (احکام) اس میں ہیں جس سے توقع ہے کہ متقی بن جاؤ۔'
ثُمَّ تَوَلَّيۡتُم مِّنۢ بَعۡدِ ذَٰلِكَۖ فَلَوۡلَا فَضۡلُ ٱللَّهِ عَلَيۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهُۥ لَكُنتُم مِّنَ ٱلۡخَٰسِرِينَ (64)
ترجمہ: 'پھر تم اس ( قول و قرار) کے بعد بھی (اس سے) پھر گئے سو اگر تم لوگوں پر خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کا رحم نہ ہوتا تو ضرور تم (فورا) تباہ ( اور ہلاک) ہو جاتے۔'
وَلَقَدۡ عَلِمۡتُمُ ٱلَّذِينَ ٱعۡتَدَوۡاْ مِنكُمۡ فِي ٱلسَّبۡتِ فَقُلۡنَا لَهُمۡ كُونُواْ قِرَدَةً خَٰسِـِٔينَ (65)
ترجمہ: 'اور تم جانتے ہی ہو ان لوگوں کا حال جنہوں نے تم میں سے (شرع سے تجاوز کیا تھا دربارہ اس حکم کے جو یوم ہفتہ کے متعلق تھا) سو ہم نے ان کو کہہ دیا کہ تم بندر ذلیل بن جاؤ۔'
- تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
وَإِذۡ قُلۡتُمۡ يَٰمُوسَىٰ لَن نَّصۡبِرَ عَلَىٰ طَعَامٖ وَٰحِدٖ فَٱدۡعُ لَنَا رَبَّكَ يُخۡرِجۡ لَنَا مِمَّا تُنۢبِتُ ٱلۡأَرۡضُ مِنۢ بَقۡلِهَا وَقِثَّآئِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَاۖ قَالَ أَتَسۡتَبۡدِلُونَ ٱلَّذِي هُوَ أَدۡنَىٰ بِٱلَّذِي هُوَ خَيۡرٌۚ ٱهۡبِطُواْ مِصۡرٗا فَإِنَّ لَكُم مَّا سَأَلۡتُمۡۗ وَضُرِبَتۡ عَلَيۡهِمُ ٱلذِّلَّةُ وَٱلۡمَسۡكَنَةُ وَبَآءُو بِغَضَبٖ مِّنَ ٱللَّهِۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمۡ كَانُواْ يَكۡفُرُونَ بِـَٔايَٰتِ ٱللَّهِ وَيَقۡتُلُونَ ٱلنَّبِيِّـۧنَ بِغَيۡرِ ٱلۡحَقِّۗ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَواْ وَّكَانُواْ يَعۡتَدُونَ (61)
ترجمہ: 'یاد کرو ، جب تم نے کہا تھا کہ ” اے موسیٰ ، ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کر سکتے۔ اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ساگ، ترکاری، گیہوں، لہسن، پیاز ، دال وغیرہ پیدا کریں۔ تو موسیٰ نے کہا کیا ایک بہتر چیز کے بجائے تم ادنی درجے کی چیزیں لینا چاہتے ہو ؟ اچھا 77 ، کسی شہری آبادی میں جا رہو جو کچھ تم مانگتے ہو وہاں مل جائے گا۔ “ آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی و بدحالی اُن پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے۔ یہ نتیجہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیات 78 سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے۔ یہ 79 نتیجہ تھا اُن کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حدود شرع سے نکل نکل جاتے تھے۔'
76- وہ چٹان اب تک جزیرہ نمائے سینا میں موجود ہے۔ سیاح اسے جا کر دیکھتے ہیں اور چشموں کے شگاف اس میں اب بھی پائے جاتے ہیں۔ ۱۲ چشموں میں یہ مصلحت تھی کہ بنی اسرائیل کے قبیلے بھی ۱۲ ہی تھے۔ خدا نے ہر ایک قبیلے کے لیے الگ چشمہ نکال دیا تاکہ ان کے درمیان پانی پر جھگڑا نہ ہو۔
77- یہ مطلب نہیں ہے کہ من و سلویٰ چھوڑ کر، جو بے مشقت مل رہا ہے، وہ چیزیں مانگ رہے ہو، جن کے لیے کھیتی باڑی کرنی پڑے گی، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس بڑے مقصد کے لیے یہ صحرا نوردی تم سے کرائی جارہی ہے، اس کے مقابلے میں کیا تم کو کام و دہن کی لذت اتنی مرغوب ہے کہ اس مقصد کے چھوڑنے کے لیے تیار ہو اور ان چیزوں سے محرومی کچھ مدت کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتے ؟ ( تقابل کے لیے ملاحظہ ہو گفتی، باب ١١ ، آیت ٩ - ٤ )
78- آیات سے کفر کرنے کی مختلف صورتیں ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ خدا کی بھیجی ہوئی تعلیمات میں سے جو بات اپنے خیالات یا خواہشات کے خلاف پائی، اس کو ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ دوسرے یہ کہ ایک بات کو یہ جانتے ہوئے کہ خدا نے فرمائی ہے، پوری ڈھٹائی اور سرکشی کے ساتھ اس کی خلاف ورزی کی اور حکم الہی کی کچھ پروا نہ کی۔ تیسرے یہ کہ ارشاد الہی کے مطلب و مفہوم کو اچھی طرح جاننے اور سمجھنے کے باوجود اپنی خواہش کے مطابق اسے بدل ڈالا۔
79-بنی اسرائیل نے اپنے اس جرم کو اپنی تاریخ میں خود تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر ہم بائیبل سے چند واقعات یہاں نقل کرتے ہیں۔
(۱) حضرت سلیمان (ع) کے بعد جب بنی اسرائیل کی سلطنت تقسیم ہو کر دو ریاستوں (یروشلم کی دولت یہودیہ اور سامریہ کی دولت اسرائیل) میں بٹ گئی تو ان میں باہم لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور نوبت یہاں تک آئی کہ یہودیہ کی ریاست نے اپنے ہی بھائیوں کے خلاف دمشق کی ارامی سلطنت سے مدد مانگی۔ اس پر خدا کے حکم سے حنانی نبی نے یہودیہ کے فرمانروا آسا کو سخت تنبیہ کی۔ مگر آسا نے اس تنبیہ کو قبول کرنے کے بجائے خدا کے پیغبر کو جیل بھیج دیا ( ۲ ۔ تواریخ، باب ۱۷ ۔آیت ۱۰ - ۷ )
(۲) حضرت الیاس (ایلیاہ) elliah) نے جب بغل کی پرستش پر یہودیوں کو ملامت کی اور از سر کو توحید کی دعوت کا صور پھونکنا شروع کیا تو سامریہ کا اسرائیلی بادشاہ اخی اب اپنی مشرک بیوی کی خاطر ہاتھ دھو کر ان کی جان کے پیچھے پڑ گیا، حتی کہ انہیں جزیرہ نمائے سینا کے پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی۔ اس موقع پر جو دعا حضرت الیاس (ع) نے مانگی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں۔
"بنی اسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کیا۔۔۔۔۔۔ تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کیا اور ایک میں ہی اکیلا بچا ہوں، سو وہ میری جان لینے کے درپے ہیں۔" (۱۔ سلاطین - باب ۱۹ - آیت ۱۰ - ۱)
(۳) ایک اور نبی حضرت میکا یاہ کو اسی اخی اب نے حق گوئی کے جرم میں جیل بھیجا اور حکم دیا کہ اس شخص کو مصیبت کی روٹی کھلانا اور مصیبت کا پانی پلانا۔ ( ۱ ۔ سلاطین۔ باب ۲۲ ۔ آیت ٢٧ - ٢٦ )
( ٤ ) پھر جب یہودیہ کی ریاست میں علانیہ بت پرستی اور بدکاری ہونے لگی اور زکریاہ نبی نے اس کے خلاف آواز بلند کی، تو شاہ یہوداہ یو آس کے حکم سے انہیں عین ہیکل سلیمانی میں ” مقدس “ اور ” قربان گاہ “ کے درمیان سنگسار کر دیا گیا
( ۲ - تواریخ، باب ٢٤ - آیت ٢١ )
( ٥ ) اس کے بعد جب سامریہ کی اسرائیلی ریاست آشوریوں کے ہاتھوں ختم ہو چکی اور وشلم کی یہودی ریاست کے سر پر تباہی کا طوفان تلا کھڑا تھا، تو " پر میاہ “ نبی اپنی قوم کے زوال پر ماتم کرنے اٹھے اور کوچے کوچے انہوں نے پکارنا شروع کیا کہ سنبھل جاؤ، ورنہ تمہارا انجام سامریہ سے بھی بدتر ہوگا۔ مگر قوم کی طرف سے جو جواب ملا وہ یہ تھا کہ ہر طرف سے ان پر لعنت اور پھٹکار کی بارش ہوئی، بیٹے گئے، قید کیے گئے، رسی سے باندھ کر کیچڑ بھرے حوض میں لڑکا دیے گئے تاکہ بھوک اور پیاس سے وہیں سوکھ سوکھ کر مر جائیں اور ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ قوم کے غدار ہیں، بیرونی دشمنوں سے ملے ہوئے ہیں۔ یرمیاہ، باب ۱۵ ، آیت ۱۰ - باب ۱۸ ، آیت ۲۳ - ۲۰ - باب ۲۰ ، آیت ۱۸ - ۱ - باب ٣٦ تا باب ٤٠ )