حیدرآباد (نیوز ڈیسک) :سرسبز کھیتوں اور دلکش پہاڑیوں کے دامن میں واقع ریاست تمل ناڈو کے ایک پرسکون گاؤں ودملاپورم سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ناچیار نابینا افراد کے لیے کسی مسیحا سے کم نہیں۔ ڈاکٹر ناچیار کو ’’روشنی سے محروم افراد کو بینائی فراہم کرنے والی مسیحا‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی بینائی سے محروم افراد کی زندگی کو بہتر بنانے اور انہیں وقار فراہم کرنے کے لیے وقف کر دی ہے۔ دہائیوں کی انتھک لگن پر محیط ان کے سفر نے بھارت اور اس سے باہر آنکھوں کی دیکھ بھال کے منظر نامے کو تبدیل کرتے ہوئے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنایا ہے۔
ایک معمولی کسان خاندان میں پیدا ہوئی ڈاکٹر ناچیار کے ابتدائی برس خاندانی بندھنوں کی گرم جوشی اور دیہی زندگی کی سخت حقیقت سے نشان زد ہے۔ علالت کی وجہ سے ان کے والد کے اچانک انتقال نے ان کے بچپن کو اندھیرے میں گھیر لیا، لیکن اسی اندھیرے نے اس کے اندر عزم کا شعلہ بھی بھڑکا دیا۔ اور انہوں نے اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر گووندپا وینکٹسوامی، جو ایک معروف ماہر امراض چشم تھے، کی سرپرستی میں مریضوں کی دیکھ بھال اور شفایابی کے عظیم مقصد میں ہی سکون تلاش کر لیا۔
اپنے تعلیمی برسوں کے دوران بصارت سے محروم طلبا کی جدوجہد کا مشاہدہ کرتے ہوئے ان کے دل میں ہمدردی کی چنگاری نے جنم لیا اور زندگی سے ہار ماننے کے بجائے لڑنے کے ان کے جذبے نے ڈاکٹر ناچیار کے عزم کو ان افراد کی زندگیوں میں بامعنی تبدیلی لانے کے جذبے کو جلا بخشی۔ اس طرح آنکھوں کی سائنس کی دنیا میں اس کا غیر معمولی سفر شروع ہوا، ایک ایسا سفر جس کی رہنمائی ہمدردی جذبے اور غیر متزلزل عزم کے حصول سے روشن ہے۔
سال 1958 میں ڈاکٹر ناچیار نے مدورائی میڈیکل کالج میں اپنی میڈیکل تعلیم کا آغاز کیا، جس نے ایک ایسے اہم کیریئر کی بنیاد رکھی جو آنکھوں کی دیکھ بھال کی نئی بلندیوں تک پہنچ گئی۔ 1963 میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے سے لے کر ملک کی پہلی نیورو اپتھلمولوجسٹ بننے تک کے ہر سنگ میل کے ساتھ اس نے ہر رکاوٹ اور مشکل کو عبور کرکے طبی پیشہ ور افراد کی آنے والی نسلوں کے لیے راہ ہموار کی۔
تاہم ڈاکٹر ناچیار کا وژن تعلیمی اداروں کی حدود سے بہت آگے بڑھ گیا، جو شمولیت، رسائی اور مساوات کا ویژن تھا-ایک ایسا ویژن جو ان کے بھائی ڈاکٹر گووندپا وینکٹسوامی کے ذریعے اروند آئی ہسپتال اور اورولاب کے قیام سے ظاہر ہوا۔ آسان اور قابل رسائی آنکھوں کی دیکھ بھال کی اہم ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے ڈاکٹر ناچیار نے اپنے بھائی کے ساتھ شراکت دار کے طور پر شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے مل کر ان اداروں کو زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد کے لیے شفایابی کی پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا۔ پسماندہ لوگوں کی خدمت کرنے کے اپنے غیر متزلزل عزم کے ذریعے انہوں نے ہمدردی کی ایسی میراث تخلیق کی جو آئندہ نسلوں کو بھی متاثر کرے گی۔
دیہی برادریوں میں طبی کیمپوں اور امتحانی مراکز سمیت اختراعی پروگراموں کے ذریعے ڈاکٹر ناچیار نے ضرورت مندوں کی دہلیز تک امید کی کرن پہنچائی۔ اس کی انتھک کوششوں کا بس ایک ہی مقصد تھا وہ یہ کہ ’’اس بات کو یقینی بنانا کہ کوئی بھی فرد اپنے اختیار سے بے قابو حالات کی وجہ سے بینائی کے عظیم تحفے سے محروم نہ رہے۔‘‘
پدم شری جیسے ایوارڈ سمیت ڈاکٹر ناچیار کو دیے گئے اعزازات و انعامات ان کے ناقابل تسخیر جذبے اور بے لوث خدمت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ تاہم ان اعزازت کے پرے ان کے لیے سب سے بڑا انعام مریضوں کے چہروں پر شکر گزاری کی مسکراہٹ اور آنکھوں میں نئی امید اور چمک میں ہی مضمر ہے۔
ڈاکٹر ناچیار آج آنکھوں کی دیکھ بھال کی تحریک میں سب سے آگے ہے اور ان کی یہ میراث طبی پیشہ ور سمیت دیگر افراد کو نسلوں تک متاثر کرے گی۔ ان کی غیر متزلزل لگن، ہمدردی اور عزم اندھیرے میں غرق افراد کی دنیا میں رہنمائی اور روشنی کی ایک کرن ہے۔ ڈاکٹر ناچیار محض دوسروں کے لیے ہی مشعل راہ نہیں بلکہ ان کی زندگی اور کارنامے ہم سب کو ہمدردی، اختراع اور غیر متزلزل لگن کا درس دیتی ہے۔ اپنی دور اندیش قیادت اور بے حد ہمدردی کے ذریعے انہوں نے نہ صرف نابینا افراد کی روشن کی بلکہ امید کا ایک شعلہ بھی بھڑکایا جو دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں کے دلوں میں چمک رہا ہے۔
مزید پڑھیں: दृष्टिहीनों की 'मसीहा' रोशनी लाने वाली डॉ. नैचियार