المکۃ المکرمہ: اللہ کے ایسے بندوں کی کافی تعداد ہے جنہیں مکہ مکرمہ میں واقع بیت اللہ اور مدینہ منورہ میں مسجد نبویﷺ کا سفر کرنے کی توفیق مل جاتی ہے۔ ایسے لوگ تو بڑے خوش نصیب ہیں، لیکن بعض ایسے افراد بھی ہیں جو رات اور دن زیارت حرمین کی تمنا کرتے رہے ہیں۔ دعائیں کرکے روتے ہیں، رب سے گڑگڑاکر دعائیں کرتے ہیں، حج اور عمرہ کرنے کے لیے پیسے بھی جمع کرتے ہیں۔ اور دیگر اسباب اپنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ مگر توفیق باندازۂ ہمت ہے ازل سے، یہ بھی حق ہے کہ اللہ کی مرضی کے سامنے کسی کی مرضی نہیں چلتی۔ جسے اللہ کے گھر سے بلاوا آتا ہے، جس کا نصیب ہوتا ہے، بس وہی شخص اللہ کے گھر کا دیدار کر سکتا ہے، روپیے پیسے ہوتے ہوئے بھی اللہ کی مرضی کے سامنےآدمی بے بس و لاچار ہے۔بہت سے لوگوں کو غربت و افلاس کے سبب حج بیت اللہ اور زیارت مسجد نبوی نصیب نہیں ہو پاتی۔
یہ بھی پڑھیں:
حج کا آج دوسرا دن، حجاج کرام رکن اعظم وقوف عرفہ کے لیے عرفات پہنچے - MANASIK E HAJ
ان اعمال سے آپ بھی کما سکتے ہیں حج کا ثواب
والدین سے حسن سلوک
اسلام میں ماں باپ سے حسن سلوک کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اس کے تئیں لوگوں کو ترغیب دینے کے لیے احادیث میں بڑے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔
أن رجلاً جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: إني أشتهي الجهاد ولا أقدر عليه، قال: هل بقي من والديك أحد؟ قال: أمي، قال: قابل الله في برها، فإن فعلت فأنت حاج ومعتمر ومجاهد
ترجمہ: ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا میں جہاد کرنا چاہتا ہوں مگر اس کی طاقت نہیں ہے تو آپ نے پوچھا کہ تمہارے والدین میں سے کوئی باحیات ہیں؟ تو اس نے کہا کہ ہاں میری ماں۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ جاؤ ان کی خدمت کرو، تم حاجی، معتمر اور مجاہد کہلاؤ گے۔ الطبراني (3/ 199رقم2915)، البيهقي (10/ 250رقم 7451) أبو يعلى (5/ 143رقم 2760)
رمضان کے مہینے میں عمرہ:
ماہ مقدس رمضان میں عمرہ کرنے کی بڑی فضیلت ہے۔ اس مہینے میں عمرہ کرنے سے حج کے برابر یعنی حج کی طرح ثواب ملتا ہے۔
فإذا جاء رمضانُ فاعتمِري، فإنَّ عُمرةً فيه تعدِلُ حجَّةً
ترجمہ: نبیﷺ نے ایک انصاری خاتون سے ارشاد فرمایا: 'جب رمضان آئے تو عمرہ کرلینا کیونکہ اس (رمضان ) میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے۔' (صحيح مسلم:1256)
نماز فجر سے طلوع شمس تک مسجد میں قیام اور دو رکعت نماز پڑھنا:
فجر کی نماز کے بعد سورج کے طلوع ہونے تک مسجد میں ٹھہرے رہنا اور اس کے بعد دو رکعت نفل نماز پڑھنے کو بڑا افضل عمل قرار دیا گیا ہے۔
'من صلى الغداة في جماعة، ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة تامة تامة تامة۔
ترجمہ: انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 'جس نے فجر کی نماز باجماعت ادا کی، اس کے بعد سورج طلوع ہونے تک اللہ کے ذکر میں لگا رہا۔ پھر دو رکعت نماز پڑھی تو اس کے لیے مکمل حج اور عمرے کے برابر ثواب ہے۔' (صحيح الترمذي: 586)
بسا اوقات فقراء ومساکین احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں دولت دی ہوتی تو دیگر افراد کی طرح ہم بھی حج کرتے، ہمیں بھی لوگ حاجی کہتے اور ہمارا بھی نام ہوتا۔ ایسے افراد کو یہ نصیحت ہے کہ حج شہرت وناموری کا ذریعہ نہیں ہے، اگر مالدار بھی شہرت کی خاطر حج کرے تو اس سے بہتر ہے کہ وہ غریب ہوتا اور اسے حج کرنے کا موقع نہ ملتا۔ کیونکہ عبادت میں عزت و شہرت اعمال کی بربادی کا سبب ہے۔ اور جہنم میں لے جانے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
بعد نماز ذکر و اذکار:
جہاں نماز عبادت کے ساتھ اپنے آپ میں بہتری دعا بھی ہے وہیں اس کے بعد بھی ذکر و اذکار کے احادیث میں بڑے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔
جاء الفقراء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا: ذهب أهل الدثور بالدرجات العُلى والنعيم المقيم، يصلون كما نصلي ويصومون كما نصوم، ولهم فَضْلٌ من أموال يحجون بها ويعتمرون ويجاهدون ويتصدقون، قال: ألا أحدثكم بأمر إن أخذتم به أدركتم من سبقكم ولم يدرككم أحد بعدكم، وكنتم خير من أنتم بين ظهرانيه إلا من عمل مثله: تسبحون وتحمدون وتكبرون خلف كل صلاة ثلاثاً وثلاثين۔
ترجمہ: حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ مسکین لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بولے کہ مال والے تو بلند مقام اور جنت لے گئے۔ وہ ہماری ہی طرح نماز پڑھتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں جب کہ ان کے لیے مال کی وجہ سے فضیلت ہے، مال سے حج کرتے ہیں، عمرہ کرتے ہیں، جہاد کرتے ہیں، صدقہ دیتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جس کی وجہ سے تم پہلے والوں کا درجہ پا سکو اور کوئی تمہیں تمہارے بعد نہ پا سکے اور تم اپنے بیچ سب سے اچھے بن جاؤ سوائے ان کے جو ایسا عمل کرے۔ وہ یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد تم تینتیس بار (33) سبحان اللہ تینتیس بار (33) الحمدللہ اور تینتیس بار (33) اللہ اکبر کہو۔ (صحیح البخاری: 843)
تاہم جو افراد غریب و مسکین افراد اللہ کی خوشنودی کے لیے حج کرنا چاہتے ہیں مگر غریبی کے سبب ان کی یہ آرزو پوری نہیں ہو پارہی۔ تو ایسے بندوں کو بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اس ارحم الراحمین نے کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کی، حج کے معاملہ میں بھی اللہ نے سب کے ساتھ انصاف کیا ہے۔
اگر کسی کو اس نے مالدار بنایا ہے تو کل قیامت میں اس کے ساتھ حساب بھی سخت ہوگا۔ مال کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اس سے پوچھا جائے گا کہ تونے مال کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔اوریہ بڑا کٹھن سوال ہوگا۔ جسے اللہ نے زیادہ مال نہیں دیا اس کے لیے آخرت میں آسانی ہی آسانی ہے کیونکہ مال کی آزمائش بہت سخت ہے۔مالداری اور غریبی دونوں میں رب کی حکمت پوشیدہ ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے محبوب پیغمبر محمد کے ذریعہ ہمیں ایسے اعمال کی خوشخبری دی جو عمل کرنے کے اعتبار سے معمولی ہیں مگر اجر وثواب کے میں حج وعمرہ کے برابر ہیں۔ جنہیں عمل میں لانے سے غریب و امیر سب کو حج وعمرہ کے برابر ثواب ملتا ہے۔