حیدرآباد: یوں تو ہر عمر کے لوگوں کو اپنے صحت یا خوراک کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے، لیکن بچپن سے جوانی تک کا دور ایسا ہوتا ہے جب لڑکیوں کی جسمانی نشوونما کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے، ساتھ ہی ان کے جسم میں ہارمونل اور دیگر کئی طرح کی تبدیلیاں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ اس مدت کے دوران لڑکیوں میں ماہواری کی بھی شروعات ہوتی ہے۔ ایسے میں ان کی صحیح نشوونما اور صحت مند مستقبل کے لیے ان کی صحت کا خیال رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔
لڑکیوں کے صحت مند مستقبل کے لیے غذائیت اور حفظان صحت دونوں ضروری ہیں۔
یونیسیف کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق، بھارت میں بچہ پیدا کرنے کی عمر کی تقریباً ایک چوتھائی لڑکیاں غذائی قلت کے شکار ہیں۔ خواتین میں غذائیت کی کمی کا مسئلہ صرف حمل کے دوران ہی تشویش کا باعث نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو بچپن سے ہی لڑکیوں میں زیادہ دیکھا جاتا ہے، جو بعض اوقات میں ان کی نشوونما کو متاثر کرتا ہے۔ صرف غذائیت کی کمی ہی نہیں بلکہ صفائی ستھرائی اور دیگر بہت سی وجوہات ہیں جو بچپن سے لے کر بڑے ہونے تک لڑکیوں کی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ تمام پریشانیاں نہ صرف جسم میں مخصوص قسم کی غذائیت کی کمی کی صورت میں بلکہ شدید انفیکشن یا دیگر مسائل کی صورت میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
احتیاط کی ضرورت ہے
بچپن سے بڑے ہونے تک لڑکیوں کے جسم میں کئی طرح کی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ درحقیقت نوعمری کے آغاز کے ساتھ ہی اکثر لڑکیوں میں ماہواری شروع ہو جاتی ہے۔ اگرچہ حیض کے دوران خارج ہونے والا ناپاک خون جسم میں کمزوری کا باعث نہیں بنتا لیکن اس خون کے ساتھ ساتھ جسم کے لیے ضروری معدنیات بھی جسم سے باہر نکلتی ہیں۔ دوسری طرف لڑکیوں کی جسمانی نشوونما کی رفتار نسبتاً لڑکوں سے زیادہ ہوتی ہیں۔ ایسی صورت حال میں ان کے جسم کی مناسب نشوونما کے لیے زیادہ غذائیت درکار ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لڑکیوں میں پیشاب یا اندام نہانی کے انفیکشن کا امکان بھی بہت زیادہ ہوتا ہے، اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ 'نہ صرف ماہواری کے دوران بلکہ عام حالات میں بھی ان کے جنسی اعضاء کی صفائی کا خاص خیال رکھا جائے'۔ کیونکہ ان اہم چیزوں کو نظر انداز کرنا بعض اوقات ان کی تولیدی صحت کو بھی متاثر کر سکتا ہے اور یہاں تک کہ گردے سے متعلق یا کچھ اور سنگین بیماریاں بھی لاحق ہو سکتا ہے۔
متوازن خوراک ضروری ہے
دہلی کی ماہر امراض اطفال ڈاکٹر رتی گپتا بتاتی ہیں کہ بچے جب بچپن سے جوانی میں داخل ہوتے ہیں یا جب وہ بلوغت میں قدم رکھتے ہیں تو اس عرصے میں ان کے قد اور وزن میں اضافہ ہوتا ہے اور جسم کے دیگر حصوں کی نشوونما ہوتی ہے۔ ویسے تو اس عمر میں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو زیادہ غذائیت کی ضرورت ہوتی ہے، تاہم لڑکیوں میں یہ تبدیلیاں لڑکوں کی بنسبت زیادہ تیز ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں ہر ماہ ماہواری کے عمل سے بھی گزرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے ہارمونل تبدیلیاں بھی آتی ہیں۔ ایسی صورت میں ان کے جسم کو زیادہ غذائیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمارے ملک میں نہ صرف خواتین میں بلکہ لڑکیوں میں بھی مردوں کے مقابلے آئرن اور دیگر غذائی اجزاء کی کمی زیادہ دیکھی جاتی ہے۔ لڑکیوں میں کسی بھی قسم کی کمی یا مسئلہ کی وجہ سے جسم کی توانائی میں کمی نہیں آنی چاہیے، ان کی نشوونما میں رکاوٹ نہیں آنی چاہیے اور جسم میں غذائیت سے متعلق کسی بھی قسم کے عنصر کی کمی نہیں ہونی چاہیے، اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ان کے خوراک کا خاص خیال رکھا جائے۔
خوراک اور غذائیت کی ماہر ڈاکٹر دیویا گپتا بتاتی ہیں کہ بچوں کو متوازن خوراک دینا بہت ضروری ہے۔ جس میں کاربوہائیڈریٹ، پروٹین، فائبر، ہر قسم کے وٹامنز، کیلشیم، منرل، دیگر معدنیات، زنک اور آئرن متوازن مقدار میں موجود ہوں۔ خاص طور پر لڑکیوں کی بات کریں تو 10 سے 18 سال کی عمر کے درمیان ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ روزانہ اوسطاً 2000 کیلوریز، 58 گرام پروٹین اور 600 ملی گرام کیلشیم لیں۔ اس کے علاوہ حیض کی وجہ سے معدنیات اور کچھ عناصر آلودہ خون کے ساتھ جسم سے باہر نکل جاتے ہیں، اس دوران کچھ ایسی غذاؤں کو اپنی خوراک میں شامل کریں۔ جن میں آئرن، زنک اور دیگر معدنیات کی مقدار زیادہ ہوں۔ ساتھ ہی اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ روزانہ مطلوبہ مقدار میں پانی کا استعمال کریں۔
حفظان صحت کا علم ہونا ضروری
اتراکھنڈ کی ماہر امراض چشم ڈاکٹر وجے لکشمی کا کہنا ہے کہ غذائیت کے علاوہ اس عمر میں لڑکیوں کو اپنے جسم کی صفائی کے بارے میں سمجھانا بہت ضروری ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ آج بھی ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو ماہواری کے بارے میں پہلے سے بتانے یا سمجھانے کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی، جو کہ درست نہیں ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اکثر لڑکیوں کو ماہواری کے دوران کی جانے والی احتیاطی تدابیر کے بارے میں علم نہیں ہوتا۔ ماہواری کے دوران حفظان صحت کا خیال نہ رکھنا بعض اوقات انفیکشن یا دیگر مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے لڑکیوں میں کئی بار پیشاب یا اندام نہانی میں انفیکشن کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ ایسا صرف دیہی علاقوں یا چھوٹے شہروں میں نہیں ہوتا بلکہ بڑے شہروں میں بھی اسکول جانے والی لڑکیاں مناسب حفظان صحت کے حوالے سے آگاہ نہیں ہوتیں۔
اکثر لڑکیوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سینیٹری پیڈ یا ٹیمپون کو کتنی دیر میں تبدیل کرنا ضروری ہوتا ہے، یا اس عرصے میں جنسی اعضاء کی باقاعدہ صفائی بہت ضروری ہے، ورنہ انفیکشن کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ جنسی اعضاء کی صفائی کے لیے کیمیکل سے بھرپور مصنوعات یا صابن کے استعمال سے گریز کیا جائے اور استعمال شدہ سینیٹری پیڈ کو کہا ڈسپوز کیا جائے۔
یہی نہیں بلکہ عام حالت میں بھی انہیں جنسی اعضاء کی باقاعدگی سے صفائی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے صحیح طریقے کے بارے میں انہیں زیادہ علم نہیں ہوتا۔ وہ بتاتی ہیں کہ خواتین کے جسم کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ 'جہاں خود بخور ڈسچارج کے ذریعے اندام نہانی کی صفائی ہوتی رہتی ہے'۔ لیکن زیادہ دیر تک انڈرگارمنٹس نہیں بدلنے کی صورت میں ان میں پیدا ہونے والا وائرس کئی بار انفیکشن کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
مزید پڑھیں:
ڈاکٹر وجے لکشمی بتاتی ہیں کہ حفظان صحت سے متعلق ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال رکھنے سے بڑی پریشانیوں کے امکانات کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ایک صحت مند بچی بڑی ہو کر صحت مند عورت بنتی ہے۔ اور اگر عورت صحت مند ہے تو ہی وہ صحت مند بچے کو کم مسائل کے ساتھ جنم دے سکتی ہے۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ بچپن سے ہی اس کی خوراک، صفائی ستھرائی، اس کی نشوونما اور صحت کے لیے ضروری چیزوں کا خاص خیال رکھا جائے۔
مزید پڑھیں: