ETV Bharat / sukhibhava

New COVID Variant: اومیکرون کے درمیان اپنی ذہنی صحت کو کیسے محفوظ رکھیں؟

author img

By

Published : Dec 2, 2021, 5:04 PM IST

پوری دنیا ابھی تک کورونا وائرس کی ابتدائی شکلوں یا لہروں سے مکمل طور پر صحت یاب ہو بھی نہیں پائی تھی کہ کورونا کی ایک نئی شکل اومیکرون New COVID Variant Omicron نے ایک بار پھر اضطراب کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ چونکہ ابھی تک اس نئے ویرئنٹ کے اثرات کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہونے کے باعث لوگ فکر مند ہیں کہ اب آنے والے دنوں میں کیا ہوگا۔ وہیں ان تشویش ناک صورتحال کے درمیان ذہنی صحت Mental Health پر مضر اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔

اومیکرون کے درمیان اپنی ذہنی صحت کو کیسے محفوظ رکھیں
اومیکرون کے درمیان اپنی ذہنی صحت کو کیسے محفوظ رکھیں

ماہرین کی جانب سے کووڈ 19 کی نئے قسم کے حوالے سے فکر مندی کے درمیان اومیکرون New COVID Variant Omicronکے دریافت ہونے کی خبر نے سب کو حیران کردیا ہے۔ اس اس نئے ویرئنٹ کے نام کو سیکھنے تک یہ وائرس آسٹریلیا اور دیگر ممالک تک پہنچ چکا ہے۔

کورونا کے اس نئے لہر کا خوف لوگوں کے خیالات میں طوفان کا باعث بن سکتا ہے۔ کورونا کے معاملات میں کمی آنے کے بعد لوگوں کو امید تھی کہ وہ جلد ہی اپنے خوف کو پیچھے چھوڑ دیں گے، لیکن اب ان میں یہ سوال پیدا ہورہے ہیں کہ کیا انہیں دوبارہ ماسک اور لاک ڈاؤن کا سامنا ہوگا؟ کیا بوسٹر شاٹس کی ضرورت ہوگی اور کیا ایک بار پھر کورونا کے ڈر سے سرحدیں بند کردی جائیں گی؟

دی یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے اسکول آف سائکلوجیکل سائنس میں ریسرچ فیلو جیولی جی بتاتی ہیں کہ آسٹریلیا کے ہیلف لائن نمبر 24 گھنٹے کی کرائسس سپورٹ سروس لائف آسٹریلیا کو اگست ماہ میں فی دن 3 ہزار 505 کالز کی گئی، جو ملک کی 57 سال کی تاریخ میں روزانہ کی جانے والی کالوں کی تعداد میں سب سے زیادہ ہے۔ اس سال کے آغاز سے 6 لاکھ 94ہزار 4 سو پریشان آسٹریلیائی شہروں نے مدد کے لیے اس لائف لائن پر کال کیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کالز معاشی مشکلات، خراب رشتہ، اکیلاپن اور خود کشی کی کوشش جیسے مسائل سے متعلق کالز کیے گئے۔ وہیں ستمبر ماہ بھی کالز کی تعداد زیادہ رہی، یہ کالز گزشتہ سال کے اسی وقت کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ تھی۔

آسٹریلیا کے مینٹل ہیلتھ تھِنک ٹینک کی تازہ ترین رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ کووڈ نے پہلے سے ہی پریشان لوگوں کے لیے جذباتی، سماجی اور مالی مشکلات پیدا کردی ہے۔ ان لوگوں میں بچے، نوجوان، خواتین، ہیلتھ کئیر ورکز، بے روزگار یا جنہیں روزگار جانے کا خطرہ ہے اور جسمانی اور ذہنی طور سے بیمار لوگ شامل ہیں۔

جیولی جی بتاتی ہیں کہ اس موجودہ وقت میں ہمیں کن غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے، ہمیں نہیں معلوم لیکن ایسی کئی چیزیں ہیں جو ہمیں اپنے دماغی مدافعتی نظام کو بہتر کرنے میں مدد فراہم کرسکتی ہے۔

مزید پڑھیں:

ہم کیا کرسکتے ہیں؟

  • غذائیت سے بھرپور خوراک پر توجہ دیں۔

سب سے پہلے اس بات پر دھیان دیں کہ آج آپ نے اپنے دماغ کو کون سی معلومات کے لیے استعمال کیا ہے، کیا آپ نے سوشل میڈیا پر بہت سی منفی خبریں پڑھی ہیں یا ان چیزوں کے بارے میں بری خبریں پڑھی ہیں جس کے بارے میں ہم کچھ کر نہیں سکے؟ غیر یقینی صورتحال ہمیں فکرمند اور خوف زدہ محسوس کرواتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم اپنے اطراف میں مفنی معلومات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ایسے میں ہم غیر واضح چیزوں کو سمجھ نہیں پاتے ہیں اور ماضی میں ہوئی غلط چیزوں کو لے کر فکرمند رہتے ہیں۔ ہماری ذہن میں بن رہے تصورات ہی ہمارے اچھے یا برے مزاج کا باعث ہیں۔ ہم جیسا سوچتے ہیں ویسا ہی محسوس بھی کرتے ہیں۔ اسلیے جب ہم برا محسوس کرتے ہیں تو ذہن میں منفی چیزیں آسانی سے آجاتی ہیں اور ہم بار بار پھر ایسا ہی محسوس کرنے لگتے ہیں۔

اس کے علاوہ اگر ہمارا دماغ خبروں اور سوشل میڈیا کی منفی تصویروں اور معلومات سے بھر جائے، ایسے میں جب بھی ہم اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے ذہن میں آسانی سے منفی تصویریں اور خیالات ابھرنے لگ جاتے ہیں۔ جو بعد میں اضطراب اور مایوسی کے منفی چکر کو ہوا دسکتا ہے، جس سے ہمیں ناامیدی اور بے بسی محسوس ہوتی ہے۔

جیولی جی نے بتایا کہ میں نے اپنی تحقیق سے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ کمپیوٹر کے کام کے دوران لوگوں کا دماغ کیسے کام کرتا ہے، وہ اس وقت کیا تصور اور محسوس کرتے ہیں۔ اس تحقیق کے ذریعہ ہم نے پایا کہ ایسے لوگوں میں مستقبل کے تئیں مثبت خیالات کم ہوتے ہیں۔

روزمرہ کی زندگی میں دلچسپ سرگرمیوں میں خود کو مصروف کرنا

جب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ساری چیزیں ہمارے قابو کے باہر ہیں تب ہمیں اپنی پسندیدہ کام کرنے میں بھی دلچسپی محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن پھر بھی ہمیں ہمت نہ ہارتے ہوئے اپنی پسندیدہ سرگرمیوں میں خود کو مشغول کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔

چاہے کھانا پکانا ہو، گیراج میں کام کرنا ہو، سیر کے لیے جانا ہو یا موسیقی سننا ہو، وہ کام جس سے آپ کو خوشی محسوس ہو، اسے کرنے سے آپ میں مثبت خیالات پیدا ہوں گے۔ یہ کام آپ ایک نئی امنگ بھرسکتا ہے اور یہاں تک کہ ڈپریشن کا علاج بھی کرسکتا ہے۔

دوسروں کے ساتھ جڑنا اور ان کی مدد کرنا، ایک طریقے سے ہماری بھی مدد کرتا ہے

انسان سماجی جانور ہیں جسے دوسروں سے جڑا رہنا پسند ہے۔ گزشتہ سال لاک ڈاؤن کے دوران ہمارے ذریعہ کیے گئے ایک سروے کے ابتدائی نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ اکثر دوسرے لوگوں سے میل جول رکھنا پسند کرتے ہیں، وہ اکیلاپن زیادہ محسوس کرتے ہیں۔ ییہ خاص طور پر ان لوگوں کے لیے درست بیٹھتھی ہ جو پہلے ہی ڈپریشن کی علامات کا سامنا کر رہے ہیں۔

دوسروں کی مدد کرنا ہماری اپنی ذہنی اور جسمانی تندرستی کو بہت فائدہ پہنچاتی ہے اور منفی خیالات کو دور رکتھی ہے۔ ہم دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں یا انہیں ہماری مدد کرنے کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس سے وہ بھی بہتر محسوس کریں گے۔

آخر میں سب ٹھیک ہوجاتا ہے

وبائی امراض کے اس مشکل وقت نے ہمیں صبر اور چیلینجز سے لڑنے کی ہمت دی ہے۔ کووڈ نے مختلف طریقوں سے حالات سے نمٹنے والی صلاحیتوں کو چیلنج کیا ہے، جنہیں پہلے کبھی چیلنج نہیں کیا گیا تھا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے آپ کے پاس ماہرین اور سپورٹ دستیاب ہیں۔ اس لیے ہمت سے کام لیں اور خود کو وقت دیں کیونکہ چیزیں بہتر ہوجاتی ہیں۔

مزید پڑھیں:

ماہرین کی جانب سے کووڈ 19 کی نئے قسم کے حوالے سے فکر مندی کے درمیان اومیکرون New COVID Variant Omicronکے دریافت ہونے کی خبر نے سب کو حیران کردیا ہے۔ اس اس نئے ویرئنٹ کے نام کو سیکھنے تک یہ وائرس آسٹریلیا اور دیگر ممالک تک پہنچ چکا ہے۔

کورونا کے اس نئے لہر کا خوف لوگوں کے خیالات میں طوفان کا باعث بن سکتا ہے۔ کورونا کے معاملات میں کمی آنے کے بعد لوگوں کو امید تھی کہ وہ جلد ہی اپنے خوف کو پیچھے چھوڑ دیں گے، لیکن اب ان میں یہ سوال پیدا ہورہے ہیں کہ کیا انہیں دوبارہ ماسک اور لاک ڈاؤن کا سامنا ہوگا؟ کیا بوسٹر شاٹس کی ضرورت ہوگی اور کیا ایک بار پھر کورونا کے ڈر سے سرحدیں بند کردی جائیں گی؟

دی یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے اسکول آف سائکلوجیکل سائنس میں ریسرچ فیلو جیولی جی بتاتی ہیں کہ آسٹریلیا کے ہیلف لائن نمبر 24 گھنٹے کی کرائسس سپورٹ سروس لائف آسٹریلیا کو اگست ماہ میں فی دن 3 ہزار 505 کالز کی گئی، جو ملک کی 57 سال کی تاریخ میں روزانہ کی جانے والی کالوں کی تعداد میں سب سے زیادہ ہے۔ اس سال کے آغاز سے 6 لاکھ 94ہزار 4 سو پریشان آسٹریلیائی شہروں نے مدد کے لیے اس لائف لائن پر کال کیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کالز معاشی مشکلات، خراب رشتہ، اکیلاپن اور خود کشی کی کوشش جیسے مسائل سے متعلق کالز کیے گئے۔ وہیں ستمبر ماہ بھی کالز کی تعداد زیادہ رہی، یہ کالز گزشتہ سال کے اسی وقت کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ تھی۔

آسٹریلیا کے مینٹل ہیلتھ تھِنک ٹینک کی تازہ ترین رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ کووڈ نے پہلے سے ہی پریشان لوگوں کے لیے جذباتی، سماجی اور مالی مشکلات پیدا کردی ہے۔ ان لوگوں میں بچے، نوجوان، خواتین، ہیلتھ کئیر ورکز، بے روزگار یا جنہیں روزگار جانے کا خطرہ ہے اور جسمانی اور ذہنی طور سے بیمار لوگ شامل ہیں۔

جیولی جی بتاتی ہیں کہ اس موجودہ وقت میں ہمیں کن غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے، ہمیں نہیں معلوم لیکن ایسی کئی چیزیں ہیں جو ہمیں اپنے دماغی مدافعتی نظام کو بہتر کرنے میں مدد فراہم کرسکتی ہے۔

مزید پڑھیں:

ہم کیا کرسکتے ہیں؟

  • غذائیت سے بھرپور خوراک پر توجہ دیں۔

سب سے پہلے اس بات پر دھیان دیں کہ آج آپ نے اپنے دماغ کو کون سی معلومات کے لیے استعمال کیا ہے، کیا آپ نے سوشل میڈیا پر بہت سی منفی خبریں پڑھی ہیں یا ان چیزوں کے بارے میں بری خبریں پڑھی ہیں جس کے بارے میں ہم کچھ کر نہیں سکے؟ غیر یقینی صورتحال ہمیں فکرمند اور خوف زدہ محسوس کرواتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم اپنے اطراف میں مفنی معلومات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ایسے میں ہم غیر واضح چیزوں کو سمجھ نہیں پاتے ہیں اور ماضی میں ہوئی غلط چیزوں کو لے کر فکرمند رہتے ہیں۔ ہماری ذہن میں بن رہے تصورات ہی ہمارے اچھے یا برے مزاج کا باعث ہیں۔ ہم جیسا سوچتے ہیں ویسا ہی محسوس بھی کرتے ہیں۔ اسلیے جب ہم برا محسوس کرتے ہیں تو ذہن میں منفی چیزیں آسانی سے آجاتی ہیں اور ہم بار بار پھر ایسا ہی محسوس کرنے لگتے ہیں۔

اس کے علاوہ اگر ہمارا دماغ خبروں اور سوشل میڈیا کی منفی تصویروں اور معلومات سے بھر جائے، ایسے میں جب بھی ہم اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے ذہن میں آسانی سے منفی تصویریں اور خیالات ابھرنے لگ جاتے ہیں۔ جو بعد میں اضطراب اور مایوسی کے منفی چکر کو ہوا دسکتا ہے، جس سے ہمیں ناامیدی اور بے بسی محسوس ہوتی ہے۔

جیولی جی نے بتایا کہ میں نے اپنی تحقیق سے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ کمپیوٹر کے کام کے دوران لوگوں کا دماغ کیسے کام کرتا ہے، وہ اس وقت کیا تصور اور محسوس کرتے ہیں۔ اس تحقیق کے ذریعہ ہم نے پایا کہ ایسے لوگوں میں مستقبل کے تئیں مثبت خیالات کم ہوتے ہیں۔

روزمرہ کی زندگی میں دلچسپ سرگرمیوں میں خود کو مصروف کرنا

جب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ساری چیزیں ہمارے قابو کے باہر ہیں تب ہمیں اپنی پسندیدہ کام کرنے میں بھی دلچسپی محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن پھر بھی ہمیں ہمت نہ ہارتے ہوئے اپنی پسندیدہ سرگرمیوں میں خود کو مشغول کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔

چاہے کھانا پکانا ہو، گیراج میں کام کرنا ہو، سیر کے لیے جانا ہو یا موسیقی سننا ہو، وہ کام جس سے آپ کو خوشی محسوس ہو، اسے کرنے سے آپ میں مثبت خیالات پیدا ہوں گے۔ یہ کام آپ ایک نئی امنگ بھرسکتا ہے اور یہاں تک کہ ڈپریشن کا علاج بھی کرسکتا ہے۔

دوسروں کے ساتھ جڑنا اور ان کی مدد کرنا، ایک طریقے سے ہماری بھی مدد کرتا ہے

انسان سماجی جانور ہیں جسے دوسروں سے جڑا رہنا پسند ہے۔ گزشتہ سال لاک ڈاؤن کے دوران ہمارے ذریعہ کیے گئے ایک سروے کے ابتدائی نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ اکثر دوسرے لوگوں سے میل جول رکھنا پسند کرتے ہیں، وہ اکیلاپن زیادہ محسوس کرتے ہیں۔ ییہ خاص طور پر ان لوگوں کے لیے درست بیٹھتھی ہ جو پہلے ہی ڈپریشن کی علامات کا سامنا کر رہے ہیں۔

دوسروں کی مدد کرنا ہماری اپنی ذہنی اور جسمانی تندرستی کو بہت فائدہ پہنچاتی ہے اور منفی خیالات کو دور رکتھی ہے۔ ہم دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں یا انہیں ہماری مدد کرنے کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس سے وہ بھی بہتر محسوس کریں گے۔

آخر میں سب ٹھیک ہوجاتا ہے

وبائی امراض کے اس مشکل وقت نے ہمیں صبر اور چیلینجز سے لڑنے کی ہمت دی ہے۔ کووڈ نے مختلف طریقوں سے حالات سے نمٹنے والی صلاحیتوں کو چیلنج کیا ہے، جنہیں پہلے کبھی چیلنج نہیں کیا گیا تھا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے آپ کے پاس ماہرین اور سپورٹ دستیاب ہیں۔ اس لیے ہمت سے کام لیں اور خود کو وقت دیں کیونکہ چیزیں بہتر ہوجاتی ہیں۔

مزید پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.