ETV Bharat / sukhibhava

کیا پی سی او ایس خواتین میں بانچھ پن کی وجہ ہے؟

ہر 10 میں سے ایک خواتین پی سی او ایس جیسی کیفیت کا شکار ہوتی ہیں۔یہ خواتین میں بانچھ پن، موٹاپا اور دیگر کئی غیر ضروری بیماری کا باعث بنتی ہے۔ خواتین کو ان سنگین کیفیت سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنی طرز زندگی میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔

کی پی سی او ایس خواتین میں بانچھ پن کی وجہ ہے
کی پی سی او ایس خواتین میں بانچھ پن کی وجہ ہے
author img

By

Published : Jun 26, 2021, 8:26 PM IST

پولی سسٹک اووری سنڈروم (پی سی او ایس) ایک عام ہارمونل بیماری ہے، جو تولیدی عمر کی 10 میں سے ایک خاتون کو متاثر کرتا ہے۔یہ خواتین میں بانچھ پن کی ایک بہت عام وجہ ہے۔لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ مغربی ممالک کے مقابلے بھارت میں پی سی او ایس سے متاثرہ خاتون کی تعداد زیادہ ہے۔

اسی سلسلے میں ای ٹی وی بھارت کی سکھی بھوا کی ٹیم نے حیدرآباد کی کیمس فرٹیلیٹی سینٹر کی ڈائریکٹر اور کنسلٹنٹ فرٹیلیٹی اسپیشلسٹ ڈاکٹر ایس جی وجےانتھی سے خصوصی بات چیت کی۔

پی سی او ایس بانجھ پن کا سبب کیسے بنتا ہے؟

ہارمونل ڈسٹربنس کی وجہ سے خواتین پی سی او ایس سے متاثر ہوتی ہیں۔بیضہ دانی میں انڈوں کی افزائش اور اس کے خارج ہونے میں اگر کسی طرح کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو وہ بانچھ پن کا باعث بن سکتا ہے۔تاہم ماہرین کی نگرانی میں اگر ہم انڈے کی افزائش کو نارمل کرنے کے لیے دوائیاں لیتے ہیں تو اس کیفیت کو درست کیا جاسکتا ہے، جس سے حمل کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

ایسے کون سے علاج ہیں جس سے پی سی او ایس خواتین بھی حاملہ ہوسکتی ہیں؟

پی سی او ایس خواتین کا علاج کرنے کے لیے سب سے پہلے وزن کا جانچ کرنا ضروری ہوتا ہے اگر وزن زیادہ ہے تو وزن کم کرنا حاملہ ہونے کے عمل میں پیدا شدہ روکاوٹ کو کم کرتا ہے۔اگر جسمانی وزن میں 5 سے 10 کلوگرام کم کیا جاتا ہے تو حاملہ کے عمل کو آسان بنانے میں مدد ملتی ہے۔اچھی خوراک اور ورزش کرنے کے علاوہ نفسیاتی علاج بھی وزن کم کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔

مزید پڑھیں:کیا کووڈ خواتین میں ہارمونز میں عدم توازن کا باعث ہے؟

مزید پڑھیں:بیضہ دانی کی صلاحیت میں کمی کی وجہ سے حاملہ ہونے میں مشکلات

پی سی او ایس خواتین میں بانجھ پن سے متعلق مخصوص علاج :

  1. اویولیشن انڈکشن:اس مرحلے میں کلومیفین سائٹریٹ یا لیٹروزول جیسی ہارومون کی دوائی پانچ دنوں تک دن میں دو سے تین بار کھانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔اوورین فولیکل(جس میں انڈے ہوتے ہیں) کی نشوونما کا الڑاساؤنڈ کے ذریعہ باقاعدگی سے معائنہ کیا جاتا ہے اور جب فولیکل کا مطلوبہ سائز تیار ہوجاتا ہے تب دوائی کی مدد سے ان انڈوں کو اووری میں ریلیز کیا جاتا ہے۔اس طریقہ علاج سے 20 فیصد حمل ٹھہرنے کا امکان ہوتا ہے۔عام طور پر یہ طریقہ علاج تین سے چار بار میں کامیاب نہیں ہوتا ہے تو مریضہ کو مصنوعی طریقہ سے مادہ تولیدی داخل کرنا کا مشورہ دیا جاتا ہے۔جسےآئی یو آئی انٹرا انسیمینشن (IUI-Intra Uterine Insemination) کہتے ہیں۔
  2. انٹرا یوٹیرن انسیمیشن:اس طریقے علاج میں خواتین کو پہلے گوناڈوٹروفن انجیکشن انڈے کی افزائش کو آسان بنانے کے لیے دی جاتی ہے تاکہ لازمی طور پر دو یا تین انڈے بن سکیں۔ اس کے بعد شوہر کا مادہ تولید لے کر تیار کیا جاتا ہے اور جانچ کے بعد صرف اچھے اور تیز حرکت والے جرثومے کو علیحدہ کرکے پھر ان کو ایک باریک پلاسٹک کی نلکی کے ذریعے بچہ دانی کے اندر ڈالتے ہیں۔ یہ ایک سادہ طریقہ ہے اور زیادہ تکلیف دہ نہیں ہوتا ہے۔اس طریقے میں 20 فیصد کامیابی ہوتی ہے۔اور اگر یہ طریقہ علاج بھی تین سے چھ بار کرنے پر بھی ناکام ہوتا ہے تب آئی وی ایف کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
  3. آئی وی ایف یا ٹیسٹ ٹیوب بے بی:اس طریقہ علاج کا نام لوگوں نے بہت سنا ہے لیکن اس علاج کے حوالے سے لوگوں میں کافی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔اس طریقہ کار میں پہلے خواتین کو مختلف قسم کی ہارمونل دوائیں یا انجیکشن دی جاتی ہیں تاکہ خواتین میں زیادہ تعداد میں انڈے بنیں۔تقریباً دس سے بیس انڈے بنانے کی کوشش ہوتی ہے۔اس کے بعد جب یہ انڈے مطلوبہ سائز میں تیار ہوجاتے ہیں ہو تب انہیں سوئی کی مدد سے انہیں نکال لیا جاتا ہے اور لیبارٹری میں خاص قسم کے انکوبیٹر میں رکھا جاتا ہے اور پھر شوہر کا جرثومہ لے کر اس کو لیبارٹری میں تیار کیا جاتا ہے۔ پھر دویا تین دن کے بعد ان میں سب سے صحت مند اور اچھے پروان چڑھنے والے دو یا تین جنین Embryo الگ کر کے انہیں بیوی کی بچہ دانی میں باریک نلکی کے ذریعے ڈال دیتے ہیں۔اگر خواتین کی عمر 35 سال سے کم ہے تو ان میں حمل ٹہرنے کی شرح 50 سے 60 فیصد تک ہوتی ہے۔
  4. لیپرو سکوپ سرجری:لیپرا اسکوپی ہارمون کی عدم توازن کو درست کرنے اور حاملہ ہونے کی سہولت فراہم کرنے میں فائدہ مند ہے۔

خوشی کی بات یہ ہے کہ خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد اس مرحلہ وار طریقہ علاج کو اختیار کرکے اولاد جیسی خوبصورت ترین نعمت سے مالا مال ہوتے ہیں۔تاہم پی سی او ایس سے متاثرہ خواتین کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ماہر ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔

مزید جانکاری کے لیے آپ ڈاکٹر وجے انتھی سے میل کر رابطہ کرسکتے ہیں:svyjayanthi99@gmail.com

پولی سسٹک اووری سنڈروم (پی سی او ایس) ایک عام ہارمونل بیماری ہے، جو تولیدی عمر کی 10 میں سے ایک خاتون کو متاثر کرتا ہے۔یہ خواتین میں بانچھ پن کی ایک بہت عام وجہ ہے۔لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ مغربی ممالک کے مقابلے بھارت میں پی سی او ایس سے متاثرہ خاتون کی تعداد زیادہ ہے۔

اسی سلسلے میں ای ٹی وی بھارت کی سکھی بھوا کی ٹیم نے حیدرآباد کی کیمس فرٹیلیٹی سینٹر کی ڈائریکٹر اور کنسلٹنٹ فرٹیلیٹی اسپیشلسٹ ڈاکٹر ایس جی وجےانتھی سے خصوصی بات چیت کی۔

پی سی او ایس بانجھ پن کا سبب کیسے بنتا ہے؟

ہارمونل ڈسٹربنس کی وجہ سے خواتین پی سی او ایس سے متاثر ہوتی ہیں۔بیضہ دانی میں انڈوں کی افزائش اور اس کے خارج ہونے میں اگر کسی طرح کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو وہ بانچھ پن کا باعث بن سکتا ہے۔تاہم ماہرین کی نگرانی میں اگر ہم انڈے کی افزائش کو نارمل کرنے کے لیے دوائیاں لیتے ہیں تو اس کیفیت کو درست کیا جاسکتا ہے، جس سے حمل کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

ایسے کون سے علاج ہیں جس سے پی سی او ایس خواتین بھی حاملہ ہوسکتی ہیں؟

پی سی او ایس خواتین کا علاج کرنے کے لیے سب سے پہلے وزن کا جانچ کرنا ضروری ہوتا ہے اگر وزن زیادہ ہے تو وزن کم کرنا حاملہ ہونے کے عمل میں پیدا شدہ روکاوٹ کو کم کرتا ہے۔اگر جسمانی وزن میں 5 سے 10 کلوگرام کم کیا جاتا ہے تو حاملہ کے عمل کو آسان بنانے میں مدد ملتی ہے۔اچھی خوراک اور ورزش کرنے کے علاوہ نفسیاتی علاج بھی وزن کم کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔

مزید پڑھیں:کیا کووڈ خواتین میں ہارمونز میں عدم توازن کا باعث ہے؟

مزید پڑھیں:بیضہ دانی کی صلاحیت میں کمی کی وجہ سے حاملہ ہونے میں مشکلات

پی سی او ایس خواتین میں بانجھ پن سے متعلق مخصوص علاج :

  1. اویولیشن انڈکشن:اس مرحلے میں کلومیفین سائٹریٹ یا لیٹروزول جیسی ہارومون کی دوائی پانچ دنوں تک دن میں دو سے تین بار کھانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔اوورین فولیکل(جس میں انڈے ہوتے ہیں) کی نشوونما کا الڑاساؤنڈ کے ذریعہ باقاعدگی سے معائنہ کیا جاتا ہے اور جب فولیکل کا مطلوبہ سائز تیار ہوجاتا ہے تب دوائی کی مدد سے ان انڈوں کو اووری میں ریلیز کیا جاتا ہے۔اس طریقہ علاج سے 20 فیصد حمل ٹھہرنے کا امکان ہوتا ہے۔عام طور پر یہ طریقہ علاج تین سے چار بار میں کامیاب نہیں ہوتا ہے تو مریضہ کو مصنوعی طریقہ سے مادہ تولیدی داخل کرنا کا مشورہ دیا جاتا ہے۔جسےآئی یو آئی انٹرا انسیمینشن (IUI-Intra Uterine Insemination) کہتے ہیں۔
  2. انٹرا یوٹیرن انسیمیشن:اس طریقے علاج میں خواتین کو پہلے گوناڈوٹروفن انجیکشن انڈے کی افزائش کو آسان بنانے کے لیے دی جاتی ہے تاکہ لازمی طور پر دو یا تین انڈے بن سکیں۔ اس کے بعد شوہر کا مادہ تولید لے کر تیار کیا جاتا ہے اور جانچ کے بعد صرف اچھے اور تیز حرکت والے جرثومے کو علیحدہ کرکے پھر ان کو ایک باریک پلاسٹک کی نلکی کے ذریعے بچہ دانی کے اندر ڈالتے ہیں۔ یہ ایک سادہ طریقہ ہے اور زیادہ تکلیف دہ نہیں ہوتا ہے۔اس طریقے میں 20 فیصد کامیابی ہوتی ہے۔اور اگر یہ طریقہ علاج بھی تین سے چھ بار کرنے پر بھی ناکام ہوتا ہے تب آئی وی ایف کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
  3. آئی وی ایف یا ٹیسٹ ٹیوب بے بی:اس طریقہ علاج کا نام لوگوں نے بہت سنا ہے لیکن اس علاج کے حوالے سے لوگوں میں کافی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔اس طریقہ کار میں پہلے خواتین کو مختلف قسم کی ہارمونل دوائیں یا انجیکشن دی جاتی ہیں تاکہ خواتین میں زیادہ تعداد میں انڈے بنیں۔تقریباً دس سے بیس انڈے بنانے کی کوشش ہوتی ہے۔اس کے بعد جب یہ انڈے مطلوبہ سائز میں تیار ہوجاتے ہیں ہو تب انہیں سوئی کی مدد سے انہیں نکال لیا جاتا ہے اور لیبارٹری میں خاص قسم کے انکوبیٹر میں رکھا جاتا ہے اور پھر شوہر کا جرثومہ لے کر اس کو لیبارٹری میں تیار کیا جاتا ہے۔ پھر دویا تین دن کے بعد ان میں سب سے صحت مند اور اچھے پروان چڑھنے والے دو یا تین جنین Embryo الگ کر کے انہیں بیوی کی بچہ دانی میں باریک نلکی کے ذریعے ڈال دیتے ہیں۔اگر خواتین کی عمر 35 سال سے کم ہے تو ان میں حمل ٹہرنے کی شرح 50 سے 60 فیصد تک ہوتی ہے۔
  4. لیپرو سکوپ سرجری:لیپرا اسکوپی ہارمون کی عدم توازن کو درست کرنے اور حاملہ ہونے کی سہولت فراہم کرنے میں فائدہ مند ہے۔

خوشی کی بات یہ ہے کہ خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد اس مرحلہ وار طریقہ علاج کو اختیار کرکے اولاد جیسی خوبصورت ترین نعمت سے مالا مال ہوتے ہیں۔تاہم پی سی او ایس سے متاثرہ خواتین کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ماہر ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔

مزید جانکاری کے لیے آپ ڈاکٹر وجے انتھی سے میل کر رابطہ کرسکتے ہیں:svyjayanthi99@gmail.com

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.