ETV Bharat / sukhibhava

ADHD Awareness Month اے ڈی ایچ ڈی بچوں کو ہی نہیں بڑوں کو بھی متاثر کرسکتا ہے

author img

By

Published : Oct 25, 2022, 2:19 PM IST

اٹینشن ڈیفیشٹ ہائپر ایکٹیویٹی ڈِس آرڈر ADHD ایک ذہنی مرض ہے جو زیادہ تر بچوں میں پایا جاتا ہے۔ لیکن بعض اوقات یہ بڑوں کو بھی پریشان کر سکتا ہے۔ عوام کو اس مرض سے متعلق بیداری پیدا کرنے اور علاج کے لیے ترغیب دینے کے غرض سے ہر سال اکتوبر کے مینے کو 'قومی ADHD آگاہی' مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے۔

اے ڈی ایچ ڈی بچوں کو ہی نہیں، بڑوں کو بھی متاثر کرسکتا ہے
اے ڈی ایچ ڈی بچوں کو ہی نہیں، بڑوں کو بھی متاثر کرسکتا ہے

حیدرآباد: اٹینشن ڈیفیشٹ ہائپر ایکٹیویٹی ڈِس آرڈر ایک ذہنی مرض ہے جو زیادہ تر بچوں میں پایا جاتا ہے۔ لیکن بعض اوقات میں یہ بڑوں کو بھی پریشان کر سکتا ہے۔ عوام کو اس مرض سے متعلق علامات اور تحفظ کے بارے میں بیداری پیدا کرنے نیز بروقت تشخیص اور علاج کے لیے ترغیب دینے کے غرض سے ہر سال اکتوبر کے مہینے کو 'نیشنل ADHD آگاہی' مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے۔

"ADHD" نہ صرف بچوں کو بلکہ بڑوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔

ہم کئی بار دیکھتے ہیں کہ کچھ بچے ہمیشہ بہت متحرک رہتے ہیں۔ ایکٹیو ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک جگہ آرام سے یا سکون سے نہیں بیٹھ پاتے، بہت جلد مشتعل ہو جاتے ہیں اور بہت زیادہ ضد اور غصہ کرتے ہیں، کسی کام میں توجہ نہیں دے پاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ایسے بچوں کو عموماً ہائپر ایکسائٹڈ بچوں کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ بچوں کا ہائپر رویہ ہمیشہ نارمل نہیں ہوتا، بلکہ بعض اوقات یہ "Attention Deficit Hyperactivity Disorder (ADHD)" کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔

تاریخ: غور طلب ہے کہ قومی ADHD آگاہی ماہ کی شروعات 2004 میں کئی تنظیموں کی مشترکہ کوششوں سے شروع ہوا تھا۔ جبکہ ADHD آگاہی کے دن کو سب سے پہلے امریکی سینیٹ نے قومی تعطیل کے طور پر قائم کیا۔ جس کو کچھ وقت بعد میں بڑھا کر ایک ماہ کر دیا گیا۔ اس وقت، یہ ماہ عالمی سطح پر بہت سے ممالک میں نہ صرف ADHD سے متعلق تنظیموں کی طرف سے بلکہ بہت سی دیگر طبی اور سماجی تنظیموں کی طرف سے بھی منایا جاتا ہے۔

اعداد و شمار کیا کہتے ہیں: ADHD میں مبتلا افراد کی تعداد کے حوالے سے عالمی سطح پر کئی مطالعات اور سروے ہو چکے ہیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ کیئر اینڈ ایکسی لینس میں شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق بچوں میں عالمی سطح پر ADHD کا پھیلاؤ تقریباً 5% ہے۔ وہیں کچھ مطالعات کے نتائج یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت میں تقریباً 1.6 فیصد سے 12.2 فیصد اسکول جانے والے بچوں میں ADHD کا مسئلہ ہے۔ یہ امراض لڑکیوں کے مقابلے لڑکوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔

انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کی ایک رپورٹ کے مطابق، ADHD کی علامات زیادہ تر پری اسکول یا KG کلاس کے بچوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن اگر صحیح وقت اور صحیح علاج نہ ملے تو یہ ذہنی امراض نوعمروں اور یہاں تک کہ بالغوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی تعلیمی، سماجی، پیشہ وارانہ اور خاندانی زندگی بھی متاثر کرسکتی ہے۔

ایڈی ایچ ڈی امراض کے وجوہات اور اقسام: واضح رہے کہ ADHD کی وجوہات کے بارے میں اب بھی کافی اختلاف ہیں۔ لیکن یہ ایک نیورو ڈیولپمنٹل حالت سمجھا جاتا ہے جو جینیاتی وجوہات کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ ADHD کی تین قسمیں ہیں۔ کچھ قسمیں بچوں اور بڑوں میں مختلف نظر آتے ہیں جو متاثرین کے ذاتی اور سماجی زندگی کو نمایاں طور پر متاثر کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سائیکوسس کا کوئی علاج نہیں ہے تاہم اسے طبی اور نفسیاتی تحقیقات، کاؤنسلنگ، تھراپی اور بعض اوقات میں دوائیوں کی مدد سے مکمل طور پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

ماہرین کیا کہتے ہیں: ای ٹی وی بھارت سکھی بھوا کی ٹیم نے ADHD کے حوالے سے دہلی کی ایک طبی ماہر نفسیات ڈاکٹر روما ماتھر سے بات کی۔ وہ بتاتی ہیں کہ اگر صحیح وقت پر اٹینشن ڈیفیسٹ ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر امراض کا پتہ چل جائے تو اس پر قابو پانا زیادہ زیادہ پیچیدہ نہیں ہوتا ہے۔ لیکن زیادہ تر معاملات میں، والدین اور اساتذہ بچوں میں ہونے والے علامات کو ADHD سائیکوسس سے جوڑنے سے قاصر ہیں۔ اگرچہ پہلے کی نسبت لوگوں میں ADHD کے بارے میں آگاہی بڑھی ہے لیکن پھر بھی زیادہ تر لوگ اس بیماری کے علاج کے لیے ماہر نفسیات کی مدد لینے سے کتراتے ہیں۔

مزید پڑھیں:

وہ بتاتی ہیں کہ بچوں میں اس نفسیات کی علامات جیسے توجہ مرکوز نہ ہونا، بہت چنچل رویہ، توجہ مرکوز کرنے میں دشواری، پڑھائی میں کمزوری، اکثر اسکول یا کہیں بھی چیزوں کو گرا دینا، ایک جگہ پر سکون نہیں بیٹھنا، جواب جاننے کے باوجود امتحان میں اچھے نمبر نہیں آنا، کسی بھی کام سے جلدی بور ہوجانا، ضد اور غصے کا رویہ دکھانا، جھگڑا اور صبر کی کمی وغیرہ نظر آنے پر ماہر نفسیات سے مشورہ لیا جائے اور اس سے بچانے کے لیے علاج کرایا جائے۔

ڈاکٹر روما کا کہنا ہے کہ اس سائیکوسس کی وجہ سے کئی بار بچوں میں خود اعتمادی کی کمی اور چڑچڑاپن بڑھنے اور بعض اوقات میں ذہنی تناؤ کا مسئلہ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

حیدرآباد: اٹینشن ڈیفیشٹ ہائپر ایکٹیویٹی ڈِس آرڈر ایک ذہنی مرض ہے جو زیادہ تر بچوں میں پایا جاتا ہے۔ لیکن بعض اوقات میں یہ بڑوں کو بھی پریشان کر سکتا ہے۔ عوام کو اس مرض سے متعلق علامات اور تحفظ کے بارے میں بیداری پیدا کرنے نیز بروقت تشخیص اور علاج کے لیے ترغیب دینے کے غرض سے ہر سال اکتوبر کے مہینے کو 'نیشنل ADHD آگاہی' مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے۔

"ADHD" نہ صرف بچوں کو بلکہ بڑوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔

ہم کئی بار دیکھتے ہیں کہ کچھ بچے ہمیشہ بہت متحرک رہتے ہیں۔ ایکٹیو ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک جگہ آرام سے یا سکون سے نہیں بیٹھ پاتے، بہت جلد مشتعل ہو جاتے ہیں اور بہت زیادہ ضد اور غصہ کرتے ہیں، کسی کام میں توجہ نہیں دے پاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ایسے بچوں کو عموماً ہائپر ایکسائٹڈ بچوں کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ بچوں کا ہائپر رویہ ہمیشہ نارمل نہیں ہوتا، بلکہ بعض اوقات یہ "Attention Deficit Hyperactivity Disorder (ADHD)" کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔

تاریخ: غور طلب ہے کہ قومی ADHD آگاہی ماہ کی شروعات 2004 میں کئی تنظیموں کی مشترکہ کوششوں سے شروع ہوا تھا۔ جبکہ ADHD آگاہی کے دن کو سب سے پہلے امریکی سینیٹ نے قومی تعطیل کے طور پر قائم کیا۔ جس کو کچھ وقت بعد میں بڑھا کر ایک ماہ کر دیا گیا۔ اس وقت، یہ ماہ عالمی سطح پر بہت سے ممالک میں نہ صرف ADHD سے متعلق تنظیموں کی طرف سے بلکہ بہت سی دیگر طبی اور سماجی تنظیموں کی طرف سے بھی منایا جاتا ہے۔

اعداد و شمار کیا کہتے ہیں: ADHD میں مبتلا افراد کی تعداد کے حوالے سے عالمی سطح پر کئی مطالعات اور سروے ہو چکے ہیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ کیئر اینڈ ایکسی لینس میں شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق بچوں میں عالمی سطح پر ADHD کا پھیلاؤ تقریباً 5% ہے۔ وہیں کچھ مطالعات کے نتائج یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت میں تقریباً 1.6 فیصد سے 12.2 فیصد اسکول جانے والے بچوں میں ADHD کا مسئلہ ہے۔ یہ امراض لڑکیوں کے مقابلے لڑکوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔

انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کی ایک رپورٹ کے مطابق، ADHD کی علامات زیادہ تر پری اسکول یا KG کلاس کے بچوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن اگر صحیح وقت اور صحیح علاج نہ ملے تو یہ ذہنی امراض نوعمروں اور یہاں تک کہ بالغوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی تعلیمی، سماجی، پیشہ وارانہ اور خاندانی زندگی بھی متاثر کرسکتی ہے۔

ایڈی ایچ ڈی امراض کے وجوہات اور اقسام: واضح رہے کہ ADHD کی وجوہات کے بارے میں اب بھی کافی اختلاف ہیں۔ لیکن یہ ایک نیورو ڈیولپمنٹل حالت سمجھا جاتا ہے جو جینیاتی وجوہات کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ ADHD کی تین قسمیں ہیں۔ کچھ قسمیں بچوں اور بڑوں میں مختلف نظر آتے ہیں جو متاثرین کے ذاتی اور سماجی زندگی کو نمایاں طور پر متاثر کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سائیکوسس کا کوئی علاج نہیں ہے تاہم اسے طبی اور نفسیاتی تحقیقات، کاؤنسلنگ، تھراپی اور بعض اوقات میں دوائیوں کی مدد سے مکمل طور پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

ماہرین کیا کہتے ہیں: ای ٹی وی بھارت سکھی بھوا کی ٹیم نے ADHD کے حوالے سے دہلی کی ایک طبی ماہر نفسیات ڈاکٹر روما ماتھر سے بات کی۔ وہ بتاتی ہیں کہ اگر صحیح وقت پر اٹینشن ڈیفیسٹ ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر امراض کا پتہ چل جائے تو اس پر قابو پانا زیادہ زیادہ پیچیدہ نہیں ہوتا ہے۔ لیکن زیادہ تر معاملات میں، والدین اور اساتذہ بچوں میں ہونے والے علامات کو ADHD سائیکوسس سے جوڑنے سے قاصر ہیں۔ اگرچہ پہلے کی نسبت لوگوں میں ADHD کے بارے میں آگاہی بڑھی ہے لیکن پھر بھی زیادہ تر لوگ اس بیماری کے علاج کے لیے ماہر نفسیات کی مدد لینے سے کتراتے ہیں۔

مزید پڑھیں:

وہ بتاتی ہیں کہ بچوں میں اس نفسیات کی علامات جیسے توجہ مرکوز نہ ہونا، بہت چنچل رویہ، توجہ مرکوز کرنے میں دشواری، پڑھائی میں کمزوری، اکثر اسکول یا کہیں بھی چیزوں کو گرا دینا، ایک جگہ پر سکون نہیں بیٹھنا، جواب جاننے کے باوجود امتحان میں اچھے نمبر نہیں آنا، کسی بھی کام سے جلدی بور ہوجانا، ضد اور غصے کا رویہ دکھانا، جھگڑا اور صبر کی کمی وغیرہ نظر آنے پر ماہر نفسیات سے مشورہ لیا جائے اور اس سے بچانے کے لیے علاج کرایا جائے۔

ڈاکٹر روما کا کہنا ہے کہ اس سائیکوسس کی وجہ سے کئی بار بچوں میں خود اعتمادی کی کمی اور چڑچڑاپن بڑھنے اور بعض اوقات میں ذہنی تناؤ کا مسئلہ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.