کولکاتا: مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 30 فیصد ہے۔ آزادی کے بعد سے بنگال کی سیاست میں مسلمانوں کی حیثیت صرف ووٹ بینک کے طور پر رہی ہے۔ سیکولر جماعتوں کی اقتدار کے باوجود مسلمانوں کے حالات میں میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنگال کے مسلمان اب اپنی سیاست شناخت کے حق میں بات کر رہے ہیں۔ بنگال کا تعلیم یافتہ طبقے کی جانب سے شناخت کی سیاست یعنی کمیونٹی کی سیاست کو حمایت حاصل ہے۔ گزشتہ برسوں میں آئی ایس ایف جیسی سیاسی جماعت بھی اس سوچ کی پیداوار ہے۔ پہلے بایاں اور ترنمول کانگریس کے دور اقتدار میں بنگال کے مسلمانوں کی سیاسی معاشی اور سماجی صورت حال میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی ہے۔West Bengal Politics
مغربی بنگال کی سیاست میں مسلمانوں کی موجودہ صورت حال پر بنگال کے مسلم سیاست داں اور تعلیم یافتہ طبقے کی جانب سے بے چینی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ سیکولر جماعتوں کی نرم ہندوتوا کی جانب سے جھکاؤ نے مستقبل کے لیے متفکر کر دیا ہے۔ بنگال کے تعلیم یافتہ مسلمان ایسے حالات میں سیاسی طور پر اپنے لئے ایک نئی راہ نکالنے کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔
آزادی کے بعد اور تا حال مغربی بنگال کے مسلمانوں کی صورت حال میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔2008 میں آئی سچر کمیٹی کی رپورٹ نے بنگال کے مسلمانوں کی تعلیمی، سیاسی معاشی اور سماجی صورت حال کو واضح کر دیا تھا۔ بایاں کی 34 سالہ حکومت میں بنگال کے مسلمانوں کی ہر شعبے میں پشماندگی نے مسلمانوں کو اپنے مستقبل کے حوالے سے فکر مند کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست میں چند سال میں ہی اقتدار میں تبدیلی واقع ہوئی تھی، لیکن اقتدار کی تبدیلی کے بعد بھی مسلمانوں کی حالت میں کوئی فرق نہیں پڑا۔
دوسری جانب نرم ہندتوا کی جانب مبینہ سیکولر جماعتوں کے جھکاؤ نے مزید پریشان کر دیا ہے۔ ریاست کے مسلمان اپنی شناخت کو لیکر سنجیدگی سے غور فکر کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ بنگال کی سیاست میں اب مسلمانوں کی حصے داری طے کرنے کے لئے شناخت کی سیاست کو متبادل کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں ریاست میں شناخت کی سیاست کا رجحان بھی بڑھا ہے۔ انڈین سیکولر فرنٹ جیسی سیاسی جماعت وجود میں آئی ہیں۔
ریاستی اسمبلی میں ایک سیٹ جیتنے میں بھی کامیاب ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے سی پی آئی ایم کے رہنما فواد حلیم نے کہا کہ بنگال میں گذشتہ 2011 سے جو حکومت ہے اس میں اقلیتوں کی صورت حال ہے سب سے زیادہ تشویشناک ہے۔ موجودہ حکومت میں ریاست میں بے روزگاری ہے، جرائم ہیں اس سے سب سے زیادہ اقلیت متاثر ہیں۔ ایسے میں اقلیتوں کو چاہیے کہ اس سے بایر نکلنے کے لئے جو دوسرے طبقے کے لوگ ہیں اور اسی طرح کے مسائل سے دو چار ہیں ان کے ساتھ ملکر کام کریں تاکہ ان کے حالات بہتر ہو سکے۔ موجودہ حکومت نے جو وعدے کیے تھے۔ اقلیتی معاشرے کو بہتر بنانے کا اس میں ناکام رہی ہے۔ لوگ اب اس بات کو سمجھ رہے ہیں جس کا ثبوت ضمنی انتخابات میں نظر آیا ہے۔
سنٹ زیورس کالج کے پروفیسر ربیع الاسلام جو اقلیتی معاشرے کی صورت حال پر نظر رکھتے ہیں انہوں نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ بنگال میں جو سیاسی جماعت خود کو سیکولر کہتے ہیں۔ اس کو پہلے دیکھنا ہوگا کہ ان سیکولر کردار کا کبھی امتحان ہوا ہے کہ نہیں ہم نے ابھی دہلی میں دیکھا کہ کس طرح مسلمانوں پر ظلم ڈھائے گئے۔ لیکن خود کو سیکولر کہنے والے نے اس پرایک لفظ نہیں کہا بنگال کے تناظر میں بھی یہی بات کہی جا سکتی ہے۔
دی دی نرم ہندوتوا پر عمل کر رہی ہیں۔ ووٹ لینے لینے کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ سیکولرزم ان کے یہاں صرف نام کو رہ گیا ہے۔بنگال کے مسلمان کی ہی صرف حالت خراب نہیں ہے بلکہ پسماندہ طبقے کے ہندوؤں کی بھی ایسی حالت لہذا مسلمانوں کو اسلام کے نام پر سیاست نہ کرکے ان کے مسائل ہیں ان کو موضوع بناکر سیاست کرے اور اپنے ساتھ ایسے مسائل سے دو چار طبقے اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرے۔
عالیہ یونیورسٹی کے پروفیسر محمد سیف اللہ نے کہا کہ بنگال میں سیاسی منطر نامے پر مسلمانوں کی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لئے مسلمانوں کی اپنی جماعت ہونی چاہئے گرچہ اس کا ہمیں نقصان ہوگا لیکن اس کے باوجود اگر ہمیں اپنی موجودگی درج کرانی ہے تو آہستہ آہستہ شناختی سیاست پر بھی غور فکر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں اپنی بات رکھنے کے لیے کسی نام نہاد سیاسی جماعت کا محتاج نہ یونا پڑے۔
یہ بھی پڑھیں: Social Worker Slams Mamata Banerjee: 'ممتا بنرجی نے اقلیتیوں کے لیے کچھ خاص نہیں کیا'