مغربی بنگال کے شمالی 24 پرگنہ ضلع کے حسن آباد امین علین گرام شادی خانہ آبادی کی تقریب کے دوران اس وقت ہنگامہ برپا ہوگیا۔ جب پولیس کو آتے دکھ کر دولہا نکاح چھوڑ کر فرار ہوگیا۔
پولیس اور لڑکی کے گھر والوں نے دولہے کو کھٹال سے ڈھونڈ کر واپس لایا۔
اطلاع کے مطابق حسن آباد کے امین علین گرام کے رہنے والے رجب علی غازی اپنی 15 برس کی بیٹی کا نکاح 22 برس کے عابد علی مستری سے کرانے کی پوری تیاری کر چکے تھے۔
بیریانی، رومالی روٹی، بھینسہ گوشت اور مچھلی وغیرہ ڈش بن کر تیار ہوچکی تھی۔ ڈی جے بھی بچ رہا تھا۔ مہمانوں کے آنے کا سلسلہ جاری تھا۔
شادی میں آئے ہوئے مہمان آلو بیریانی اور مچھلی کے بنے کھانے کے آئٹم سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ تبھی بن بلائے مہمان بلاک جوائنٹ ڈیولپمنٹ افیسر سبھاسیش داس پولیس کی ایک ٹیم ساتھ پہنچ گئے۔
بلند آواز میں بجنے والا ڈی جے بند ہوگیا۔ لوگوں کو کچھ سمجھ میں آنے سے پہلے ہی نکاح کے لیے بیٹھا دولہا فرار ہوگیا۔
دولہا کے فرار ہونے اور پولیس کے آنے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلتے ہی بیریانی اور مچھلی کے بنے کھانے کے مختلف آئٹم سے لطف اندوز ہونے والوں کے گلے سے کھانا نیچے اترنا ہی بند ہو گیا۔
بلاک جوائنٹ ڈیولپمنٹ آفیسر سبھاسیش داس نے نابالغ شبنم (فرضی نام ) کے والد رجب علی غازی کو بلایا اور ان کی لڑکی سے متعلق چند سوالات کیے۔
لڑکی کے والد رجب علی غازی کا کہنا ہے کہ میری بیٹی کی عمر 15 ہے۔ یہ بات مجھے اچھی طرح سے پتہ ہے۔ لیکن ایک اچھا لڑکا ملا ہے اس لیے شادی کے لیے میں راضی ہوا۔ اس میں غلط کیا ہے۔
جوائنٹ بی ڈی او نے کہا کہ ہاں غلطی یہ ہے کہ لڑکی کی 15 سال ہے۔ وہ شادی کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس بنیاد پر نکاح میں موجود تمام لوگ کو جیل جانا پڑ سکتا ہے۔
جوائنٹ بی ڈی او کی ہدایت پر مفرور دولہے کو ڈھونڈ کر لایا گیا۔ اور نکاح کی کارروائی مکمل کی گئی۔
جوائنٹ بی ڈی اور پولیس کی موجودگی میں دس لاکھ روپے اور پانچ پانچ برس کے لیے جیل کے نام مچلکا تیار کیا گیا۔
مچلکے پر لڑکی اور لڑکے کے دستخط لیے گئے اور لڑکی کی شادی کے لیے 18 برس تک انتظار کرنے کی ہدایت دی گئی۔