مغربی بنگال میں سینکڑوں ایسے مدارس ہیں، جن کو سرکاری منظوری تو حاصل ہے لیکن ان کو کوئی سرکاری سہولت نہیں ملتی ہے۔ گذشتہ نو برسوں سے ایسے ہی 235 مدارس ریاستی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کے ادارے میں مڈ ڈے میل دیا جائے۔
عام سرکاری اسکولوں و مدارس کی طرح بچوں کو سائیکل و یونیفارم و اسکالرشپ دی جائے۔ لیکن حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔
ان مدارس کو صرف مغربی بنگال ایجوکیشن بورڈ کی جانب سے منعقد کئے جانے والے بورڈ امتحانات میں شرکت کرنے کی اجازت ہے۔
اس کے علاوہ ان مدارس کو کوئی بھی سرکاری سہولت نہیں دی جاتی ہے۔ ان مدارس کو ایم ایس کے ماتحت لانے کی بات کہی گئی تھی، لیکن آج تک حکومت نے وعدہ پورا نہیں کیا۔
گذشتہ نو برسوں سے ان مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کو تنخواہ نہیں ملی ہے، جس کے لئے گذشتہ 24 دنوں سے سالٹ لیک میں دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
آج ان ایڈیڈ مدرسہ ٹیچرز نے کولکاتا کے سیالدہ سے پارک سرکس تک احتجاجی ریلی نکالی۔ اس موقع پر ان ایڈیڈ ریکاگنائزڈ مدرسہ ٹیچرس ایسو سی ایشن کے ریاستی صدر شیخ جاوید میاں داد نے کہا کہ گذشتہ 24 دنوں سے ہم دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں، کئی ٹیچرز بھوک ہڑتال بھی کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود ابھی حکومت کا کوئی نمائندہ ہماری خبر لینے نہیں پہنچا ہے۔
جاوید میاں داد نے کہا کہ آخ ہمارے 2500 ہزار اساتذہ کا کیا قصور ہے جو ان کو تنخواہ نہیں دی جاتی ہے۔ ہمارے مدارس میں پڑھنے والے بچوں کا کیا قصور ہے جو ان کو نہ ہی کنیا شری کے تحت اسکالرشپ مل رہا ہے نہ ہی سائکل و یونیفارم ہمارا مطالبہ ہے کہ ٹیچروں کو تنخواہ دی جائے اور ان ہمارے مدارس کو تمام تر سرکاری سہولیات مہیا کی جائے۔
مدرسہ ٹیچرز کی حمایت میں پہنچے سماجی کارکن و قومی اور ریاستی سطح پر معلمی کے لئے ایوارڈ پانے والے قاضی معصوم اختر نے کہا کہ جب حکومت ہر فرد اور ہر ذات و مذہب کے ماننے والوں کی ترقی کی بات کرتی ہے تو ان مدارس کو جدید بنانے کی بات کرتے ہیں تو ان مدارس کے بچوں کو یونیفارم اور اسکالرشپ نہ دے کر ان مدارس کے اساتذہ کو تنخواہ نہ دے کر کیسے ترقی ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھیں:
مغربی بنگال: بی جے پی کارکنوں کی ترنمول کانگریس میں شمولیت
مدارس میں غریب اقلیت کے بچے پڑھتے ہیں، ان کو بھی یہ سہولیات مہیا کرائی جائے۔ تعلیم کو بچایا جائے اور حکومت ان کے مطالبات کو پورا کرے۔