لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہار اور اترپردیش سے تعلق رکھنے والے ورکرز بڑی تعداد میں اپنے گھروں کو لوٹ گئے ہیں۔ ایسے میں ورک فورسز کی قلت کا سامنا ہے۔ اس وقت جوٹ ملوں میں 18 فیصد خواتین کام کرتی ہیں۔
اگر مغربی بنگال حکومت اجازت دے دیتی ہے تو پہلی مرتبہ خواتین جوٹ ملوں میں رات میں کام کریں گی۔ ملک بھر میں بنگال میں سب سے زیادہ جوٹ پروڈکشن ہوتا ہے۔
29مئی کو وزیرا علیٰ ممتا بنرجی نے کہا تھا کہ یکم جون سے 59جوٹ ملس صد فیصد ورک فورسز کے کام کر سکتی ہیں۔ اس کے ایک ہی دن بعد انڈین جوٹ مل ایسوسی ایشن نے ریاستی وزیر محنت ملئے کھٹک سے درخواست کی تھی کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ورک فورسز کی قلت ہے۔
دوسری ریاستوں سے تعلق رکھنے والے ورکرس اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں، اس لئے عارضی طور پر خواتین کو رات میں کام کی اجازت دی جائے مگر پی ایف نہیں دیا جاسکے گا۔
جوٹ ملس ایسوسی ایشن کے سینئر ممبر آر کے پوتدار نے کہا کہ اترپردیش، بہار اور جھاڑ کھنڈ سے تعلق رکھنے والے بڑی تعداد میں جوٹ ملس ورکرز اپنے اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں، اس کی وجہ سے ورک فورسز کی قلت کا سامنا ہے۔
دوسری طرف بڑی تعداد میں بنگا ل میں بھی غیر مقیم مزدور دوسری ریاستوں سے یہاں آئے ہیں۔انہیں ملازمت کی ضرورت ہے۔اگر حکومت ہماری تجویز پر راضی ہوجاتی ہے تو ہزاروں بے روزگار کیلئے یہ اچھا موقع ثابت ہوگا۔
ریاستی وزیر ملئے کھٹک نے کہا کہ ہم ایسوسی ایشن کی اپیل پر غور کریں گے۔اس سے قبل ہم نے سوفٹ ڈرنک کمپنی کو رات میں خواتین ملازمین سے کام کرانے کی اجازت دی ہے۔چوں کہ ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ وہ خواتین ورکروں سے پی ایف کے بغیر کام کرائیں گے اس لئے اس پر غور کیا جائے گا۔
اس سے قبل 29مئی کو وزیر اعظم نریندر مودی کے صلاح کار بھاسکر کھلبے نے چیف سیکریٹری راجیو سنہا کو خط لکھ کر کہا تھا کہ جوٹ ملوں میں یومیہ 10,000بیلس کے پروڈکشن میں مدد کریں اور ہمیں 4جون تک آپ کے جواب کا انتظار رہے گی۔
اپریل سے ہی مرکزی حکومت یہ کہتی رہی کہ جوٹ ملوں میں کام کی اجازت دی جائے کیوں کہ مختلف ریاستوں کو جوٹ بیگ کی قلت کا سامنا تھا۔
اپنے ایک خط میں مرکزی حکومت نے کہا تھا کہ پنجاب، ہریانہ، اترپردیش اور مدھیہ پردیش کو پیکجنگ کیلئے بیگ کی قلت کا سامنا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن کی وجہ سے جوٹ انڈسٹری کو 1,250کروڑ کے نقصانات کا سامنا ہے۔