سنبھل: جامع مسجد کے صدر ایڈوکیٹ ظفر علی کو پولس نے پیر کی دوپہر حراست میں لے لیا۔ ظفر علی کے ساتھ مزید چھ افراد کو حراست میں لیا گیا۔ واضح رہے کہ ظفر علی نے پیر کی صبح پریس کانفرنس کرکے پولیس اور ڈی ایم پر سنگین الزام عائد کئے تھے۔
انہوں نے کہاکہ سروے کے دوران ٹنکی سے پانی چھوڑنے کی وجہ سے مقامی لوگوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ مسجد میں کھدائی کی جارہی ہے، جبکہ اس دوران مسجد کمیٹی کی جانب سے لاوڈاسپیکر کے ذریعہ لوگوں کو سمجھانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ انہوں نے پولیس عہدیدار پر بھیڑ کے ساتھ گالی گلوچ کرنے اور غیرضروری لاٹھی چارج کرنے کا بھی الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے فائرنگ کی جبکہ ہجوم کی طرف سے کوئی فائرنگ نہیں کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: اتردیش میں پانچ مسلم نوجوانوں کی ہلاکت انتہائی افسوسناک: میرواعظ
وہیں دوسری طرف سنبھل کے ضلع مجسٹریٹ (ڈی ایم) ڈاکٹر راجندر پنسیا نے ظفر علی کے تمام الزامات کی تردید کی۔ انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "جامع مسجد کمیٹی کے سربراہ ظفر علی نے ایک گمراہ کن بیان دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انہیں (مسجد کے سروے) کے بارے میں اطلاع نہیں دی گئی، عدالتی حکم 24 نومبر کو 2:38 بجے آیا اور شام ساڑھے پانچ بجے کے قریب ایڈووکیٹ کمشنر کے حکم کی کاپی موصول ہوئی جس پر ان کے دستخط تھے۔ انہوں نے ظفر علی سے سوال کیا کہ ’کیا آپ پولیس کو گولی چلاتے ہوئے دیکھ رہے تھے یا سروے کروانے میں مصروف تھے۔ سنبھل کے ڈی ایم نے پولیس کارروائی کے بارے میں ظفر علی کے بیانات پر بھی تنقید کی اور ان کے ریمارکس کو 'گمراہ کن' قرار دیا۔