مغربی بنگال کے دارلحکومت کولکاتا کے مسلم اکثریتی علاقے ناخدا مسجد،کولوٹولہ، خضر پور، مٹیابرج، رپن اسٹریٹ، توپسیا، بیل گھچیا اور دیگرا ٓس پاس علاقے میں دوکانیں بند رہیں۔
![کولکاتا کے مسلم علاقوں میں بند کاخاصا اثر](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/5888711_nrc.jpg)
دھرم تلہ میں واقع میدان مارکیٹ جہاں ہندواور مسلمانوں دونوں کی دوکانیں ہیں اور مرکزی کلکتہ میں واقع ہونے کی وجہ سے یہاں اچھی خاصی بھیڑ رہتی ہے۔
مگر یہاں بھی بیشتر دوکانیں بند تھیں۔کئی ہندودوکانداروں نے بتایا کہ ہم لوگ یہاں تمام تہوار مل جل کر منارہے ہیں اگر مسلمان اس ہڑتال کی حمایت کررہے ہیں تو ہم بھی ان کے ساتھ یکجہتی کے طور پر دوکانیں بند کررہے ہیں۔
یہی صورت حال نیو مارکیٹ میں بھی آج بیشتر دوکانیں بند تھیں جب کہ آج سرسوتی پوجا کی چھٹی کی وجہ سے بھیڑ زیادہ ہونے کی توقع تھی اس کے باوجود دوکانداروں اور ہاکروں نے اپنے دوکانیں بند رکھا۔
![کولکاتا کے مسلم علاقوں میں بند کاخاصا اثر](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/5888711_npr.jpg)
نیو مارکیٹ میں ہی ”چیپلین اسکوائر“ گزشتہ ایک ہفتے سے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ ہورہا ہے جس میں خواتین بھی شامل ہیں۔
مالدہ اور مرشدآباد سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ہڑتال کا اثر دیکھنے کو ملا ہے۔مرشدآباد میں بند کی حمایت میں جالنگی پولس اسٹیشن علاقے میں ایک جلوس نکالاگیا تھا جس پر فائرنگ ہونے کی وجہ سے دوافراد کی موت ہوگئی ہے۔
رپن اسٹریٹ میں گلاس دوکان کے مالک اشفاق احمد جو سماجی کارکن اور سیاسی لیڈر بھی ہیں نے بتایا کہ آ ل انڈیا بہوجن کرانتی مورچہ سے وابستہ نہیں ہے مگر اس کے باوجود اس ہڑتال کی حمایت کرتے ہیں اورہم لوگوں نے رضاکارانہ طور پر آج ساری دوکانیں بند کی ہیں اور پورے علاقے میں دوکانیں بند ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شہریت ترممی ایکٹ کے خلاف جو بھی احتجاج کرے گا ہم اس کی حمایت کریں گے۔کیوں کہ یہ ہندوستان کے دستور اور آئین کا سوال ہے۔یہ صرف کسی ایک کمیونیٹی کا سوا ل نہیں ہے بلکہ یہ ملک کا سوال ہے۔