مغربی بنگال کے مرشدآباد مسلم اکثریتی ضلع ہے جہاں کے لوگوں کی زندگی کھیتی باڑی پر منحصر ہے۔
بھارت بنگلہ دیش کے سرحد کے قریب واقع ضلع مرشدآباد میں قدرتی وسائل ہونے کے باوجود دوسرے اضلاع سے یہ پچھڑا ہوا ہے۔
مرشدآباد ضلع میں اقلیتی طبقے کو بے روزگاری سمیت متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان میں سے ہی ایک کم عمری کی شادی ہے ضلع میں بے روزگاری کے سبب مالی تنگی کا سامنا کرنے والے غریب خاندان اپنی بیٹیوں کی شادی کم عمری میں کرنے پر مجبور ہیں۔
چند لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے والدین کے دباؤ میں کم عمری میں ہی شادی کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں تو چند اس کی مخالفت میں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ مرشد آباد ضلع کے ہریرپاڑہ میں پیش آیا تھا جب ایک نابالغ لڑکی نے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے شادی کی مخالفت کی تھی۔ مخالفت کے سبب والدین اور رشتہ داروں کو شادی روکنی پڑی۔
ضلع انتظامیہ اور ریاستی چائلڈ پروٹیکشن کمیشن کی جانب سے کم عمر کی شادی رکوانے پر نور بانو کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔
اس موقع پر نور بانو نے کہا کہ وہ اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں۔پڑھ لکھ کر وہ دوسروں کو بھی اس طرح کی پریشانیوں سے نجات دلانا چاہتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مارچ میں جب پہلی مرتبہ لاک ڈاؤن ہوا اس وقت سے لے کر اب تک تین مرتبہ ان کی شادی کرانے کی ناکام کوشش کی گئی۔
نویں جماعت میں پڑھنے والی نور بانو کا کہنا ہے کہ تیسری مرتبہ میری شادی کی تمام تیاریاں مکمل ہو چکی تھی اس کے باوجود انھوں نے انکار کر دیا۔ نور بانو کا کہنا ہے کہ وہ گھر سے نکلی اور بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر کے دفتر پہنچ کر ساری بات بتائی۔
بی ڈی او آفیسر اور تھانے کے سی او نور بانو کو لے کران کےگھر پہنچے اور والدین اور رشتہ داروں کو سمجھانے میں کامیاب رہے۔
اس موقع پر بی ڈی او راجا بھومک نے کہا کہ نابالغ لڑکی کی شادی کوئی بھی رکوا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ملی الامین کالج کی طالبات کا کوئی پرسان حال نہیں