گذشتہ کئی برسوں سے مغربی بنگال کے مالدہ ضلع کے آموں کی خریداری کرنے والوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر کمی آئی ہے۔آم کے کاروبار کو گزشتہ کئی برسوں میں کافی نقصان پہنچا ہے۔
پہلے مالدہ ضلع کے آموں کی بڑی تعداد میں بیرونی ممالک میں برآمدات ہوا کرتی تھی۔لیکن اب بیرون ممالک میں بھی مالدہ کے آموں کی خریداروں میں کمی آئی ہے۔صرف بیرون ممالک میں ہی نہیں بلکہ مختلف ریاستوں میں بھی مالدہ کے آموں کے خریداروں میں کمی آئی ہے۔
فی الحال صرف آسام ،بہار اور جھاڑکھنڈ میں مالدہ کے آموں کے خریدار ہیں۔لیکن اب تشویش ہے کہ ان تین ریاستوں میں بھی مالدہ کے آموں کے چاہنے والے کب تک رہیں گے ۔اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ مالدہ ضلع میں آم کی کاشت میں بڑے پیمانے پر جراثیم کش دواؤں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
پھل تیار ہونے تک دس بارہ مرتبہ جراثیم کش دواؤں کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔آموں کو جلد پکنے کے لئے کیلشیئم کاربائڈ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔اس طرح سے پکنے والے آم صحت کے لئے مضر ہوتے ہیں۔جس کا اقرار خود کسان بھی کر رہے ہیں۔لیکن ان کا کہنا ہے کہ کاروبار کو بچائے رکھنے کے لئے یہ سب کرنا پڑتا ہے اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
ضلع کے ترقیاتی دفتر کے طرف سے بار بار کسانوں کو اس سلسلے میں آگاہ کرنے پر بھی کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔مالدہ ضلع میں گزشتہ پانچ سو برسوں سے آم کی کاشت ہو رہی یے۔
تاریخ ہے کہ اس ضلع ست آم مغلوں کے دربار میں بھی جایا کرتا تھا۔اس کے علاوہ یورپی ملکوں میں بھی مالدہ سے آم اس زمانے میں بھیجا جاتا تھا۔
مالدہ ضلع میں 350 قسم کے آموں کی کاشت ہوتی ہے۔موجودہ اعداد و شمار کے مطابق ہر سال یہاں ڈھائی لاکھ میٹرک ٹن آم کی پیداوار ہوتی ہے۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ آم کی کاشت میں بھی کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ۔کئی دہائیوں قبل جہاں آم کی کاشت کے لئے قدرتی طریقہ کار کا استعمال کیا جاتا تھا.
اب اس کی جگہ کیمیائی طریقہ کار کا استعمال ہوتا ہے۔مالدہ ضلع کے آموں کی بازار میں خریداروں کی کمی کی ایک بڑی وجہ اسی کو سمجھا جا رہا ہے۔