تین سال قبل کلکتہ ہائی کورٹ میں مغربی بنگال کی حکومت سے منظور شدہ مدارس میں مغربی بنگال مدرسہ سروس کمیشن کی جانب سے اساتذہ کی تقرری کو چیلنج کیا گیا تھا۔ اقلیتی اداروں کو جو دستور کی دفعہ 30 میں جو اختیارات دیئے گئے ہیں۔
اس میں مداخلت کا الزام لگایا گیا تھا جس کی شنوائی کرتے ہوئے کلکتہ ہائی کورٹ نے کمیشن کے ذریعے حکومت سے منظور شدہ مدارس میں اساتذہ کی تقرری کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اساتذہ کی تقرری کا اختیار مدارس کے انتظامیہ کمیٹی کو دے دیا تھا ۔
اس کے خلاف مغربی بنگال حکومت اور بنگال مدرسہ ایجوکیشن فورم نے سپریم کورٹ میں کلکتہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلینج کیا تھا تین برسوں تک اس کی شنوائی چلی اس معاملے میں آج دپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حکومت سے منظور شدہ مدارس میں اساتذہ کی تقرری اور امتحانات کرانے کا اختیار کمیشن کے پاس ہی رہے گا۔
اس سے دستور کی دفعہ 30 کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ہے۔اس فیصلے کے بعد کمیشن کے ذریعے تقرری پانے والے اساتذہ نے خوشی کا اظہار کیا اس معاملے کے ایک فریق بنگال مدرسہ ایجوکیشن فورم نے آج ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ گزشتہ تین برسوں دے ہماری لڑائی جاری تھی ۔
آج ہمیں کامیابی ملی ہے ہم بہت خوش ہیں۔ بنگال مدرسہ ایجوکیشن فورم کے رکن پروفیسر مکھلیشر رحمان نے ای ٹی وی بھارت سے کہا کہ 2016 تک حکومت سے منظور شدہ مدارس میں میں اساتذہ کی تقرری کا اختیار مدرسہ سروس کمیشن کے پاس تھا لیکن کچھ مدارس کے انتظامیہ کمیٹی کلکتہ ہائی کورٹ میں دستور کی دفعہ 30 کا حوالہ دیکر کمیشن کے اختیارات کو چیلینج کیا تھا ۔اس پر شنوائی کرتے ہوئے کلکتہ ہائی کورٹ نے کمیشن کو مدارس میں اساتذہ کی تقرری کے اختیار کو غلط قرار دیا تھا جس کے بعد بنگال مدرسہ ایجوکیشن فورم نے سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی اور آج سپریم کورٹ نے ہمارے حق میں فیصلہ سنایا ۔
اس سے اساتذہ میں خوشی کا ماحول ہے کیونکہ ہائی کورٹ کے فیصلے سے کمیشن کے ذریعے تقرری پانے والے اساتذہ کی نوکریاں خطرے میں پڑ گئی تھی۔ پریس کانفرنس میں معروف بنگلہ گلوکار اور سابق ایم پی کبیر سومن بھی موجود تھے انہوں نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ کمیشن کی ذریعے تقرری کئے جانے سے قابل اساتذہ کو موقع ملے گا۔
جبکہ اگر یہ اختیار انتظامیہ کمیٹی کے پاس ہوتی تو روپئے لیکر نااہل اساتذہ کی تقرری کا سلسلہ جاری رہتا اب تک اس طرح کے کئی معاملے یو بھی چکے ہیں۔