مغربی بنگال کے تعلیمی نظام میں مدارس کی حیثیت تاریخی رہی ہے۔ 1781 میں بنگال کے گورنر وارین ہیشٹنگ نے کلکتہ مدرسہ کی بنیاد ڈالی جس میں بلا تفریق ذات و مذہب تعلیمی سلسلہ جاری رہا اور کئی عظیم شخصیات نے اس مدرسہ سے جنم لیا۔
کلکتہ مدرسہ عالیہ مدرسہ بنا اور پھر 2008 میں بایاں محاذ کے دور میں مدرسہ عالیہ سے عالیہ یونیورسٹی میں تبدیل ہو گیا۔ اس طویل عرصے میں بنگال میں مزید 614 سرکاری مدارس قایم ہو چکے تھے۔ ان میں زیادہ تر دیہاتوں میں ہیں۔
بنگال کے مختلف اضلاع میں موجود، ان مدارس میں غیر مسلموں کی بھی ایک بڑی تعداد زیر تعلیم رہی بلکہ بردوان کے ایک مدرسہ غیر مسلم طالب علم نے گذشتہ سال مدرسہ بورڈ کے امتحان میں ریاست میں دوسرا مقام بھی حاصل کیا۔
مغربی بنگال میں مدرسہ تعلیم کئی اقسام میں ہیں۔ پہلا مکتب یا خارجی جو انفرادی طور پر یا مسلم طبقے یا تنظیموں کے ذریعے چلائے جاتے ہیں جہاں خصوصی طور پر مذہبی تعلیم دی جاتی ہے۔ اب ان مدارس میں بھی جدید تعلیم کا نظم ہے۔
دوسری قسم کو دو حصے میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک ہائی مدرسہ تعلیمی نظام جو مادھیامک بورڈ کے ہم پلہ ہے۔ جہاں عربی اور اسلام پریچئے (اسلام کا تعارف) کے علاوہ نصاب اور سبجیکٹس وہی ہیں جو مادھیامک بورڈ کے ہیں۔
تیسری قسم میں قدیم طرز پر سینئر ہائی مدرسہ تعلیم نظام ہے جو جدید تعلیم سائنس و ٹیکنالوجی، اسلامی تعلیم و ثقافت اور دینیات پر مبنی ہے۔ سینئر مدرسہ میں پہلی جماعت سے دسویں تک کی تعلیم دی جاتی ہے جس کو عالم کہتے ہیں جہاں بنگلہ، انگریزی، اردو، ریاضی، سائنس کے ساتھ عربی اسلامی ثقافت و دینیات کی تعلیم دی جاتی ہے جبکہ پہلی جماعت سے بارہویں جماعت تک کو فاضل کہا جاتا ہے۔ سوشل سائنسز، لسانیات اور دینیات پڑھائی جاتی ہے۔
مغربی بنگال کے مدرسہ تعلیمی نظام کو قومی و بین الاقوامی سطح پر اس وقت شناخت ملی جب واشنگٹن بروکنگ دوحہ سینٹر نے بنگال کے مدرسہ تعلیمی نظام کو سیکولرزم کا نمونہ قرار دیا تھا۔
''مسلم دنیا کے دوسرے حصوں میں مدارس نے تعلیم کے بنیادی مقاصد کا حق ادا کیا ہے۔ مثال کے طور پر بھارت کی ریاست مغربی بنگال ہمارے سامنے ہے۔ 2009 کے جنوری میں ہوئے ایک سروے کے مطابق مدارس میں اعلیٰ تعلیمی معیار کی وجہ سے غیر مسلم بچے بھی ان مدارس میں داخلہ لے رہے ہیں۔"
بایاں محاذ کے دور حکومت میں مغربی بنگال مدرسہ بورڈ کے صدر رہے ڈاکٹر عبد الستار کو پیرس میں ہونے والے یونیسکو کے 32 ویں اجلاس میں 2003 میں مدرسہ تعلیم کی ترقی میں اہم رول ادا کرنے پر مدعو کیا گیا تھا۔ مدرسہ بورڈ کے وہ پہلے صدر بھی تھے جن کو یہ موقع ملا۔
مغربی بنگال میں حکومت سے امداد یافتہ مدارس کی تعداد 614 ہے۔ مدارس میں تدریسی و غیر تدریسی عملہ کی تقرری کے لئے بایاں محاذ کی حکومت نے 2008 میں مغربی بنگال مدرسہ سروس کمیشن قائم کیا تھا۔ 2008 سے 2013 تک کمیشن کے ذریعے کل 8573 تدریسی اور 1165 غیر تدریسی عملہ کی تقرری عمل میں آئی، لیکن 2011 میں ریاست میں اقتدار میں تبدیلی آئی اور ممتا بنرجی وزیر اعلی بنی۔
انہوں نے مزید دس ہزار مدارس قائم کرنے کا وعدہ کیا، لیکن 2014 میں مدرسہ سروس کمیشن کی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کلکتہ ہائی کورٹ میں معاملہ دائر کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں 2014 میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کی تقرری رک گئی۔
معاملہ جب سپریم کورٹ پہنچا عدالت نے کمیشن کو تقرری کے لئے مقابلہ جاتی امتحانات کرانے کی ذمہ داری دی لیکن 2014 کے بعد سے مدرسہ سروس کمیشن کی طرف سے نئے طور پر سرکاری مدارس میں اساتذہ کی تقرری عمل میں نہیں آئی ہے۔
2014 کے نتائج سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد پانچ ستمبر 2016 میں شائع کئے گئے۔ 5 ستمبر 2017 میں کلکتہ ہائی کورٹ نے اساتذہ کی تقرری کا عمل شروع کرنے کی ہدایت دی لیکن حتمی فیصلہ سپریم کورٹ پر چھوڑ دیا۔
2018 میں سپریم کورٹ نے مدرسہ سروس کمیشن کی حیثیت کو صحیح قرار دیا جس کے بعد 3706 کامیاب امیدواروں کو کلی طور پر بحال کر دیا گیا۔
بایاں محاذ کے دور میں مغربی بنگال کے وزیر اقلیتی امور و مدرسہ تعلیم عبدالستار نے بنگال کے مدرسہ تعلیم کی موجودہ صورت حال پر ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'گذشتہ دس برسوں میں بنگال کے مدارس کے ساتھ ممتا بنرجی کی حکومت کا رویہ مجرمانہ رہا ہے۔'
ممتا بنرجی کی حکومت میں سیکنڈری اسکولوں میں جو مادھیامک بورڈ کے ماتحت ہیں ان میں اساتذہ کی تقرری ہوئی جبکہ مدارس میں 2014 کے بعد سے کوئی تقرری نہیں ہوئی ہے۔ مدرسہ میں اساتذہ کے تبادلہ کا معاملہ آج تک حل نہیں ہو سکا لیکن اسکولوں میں یہ ہوگیا۔'
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ممتا بنرجی کی مدرسہ اور اسکول لے کر دو طرح کی پالیسی کیوں ہیں۔ اگر بی جے پی آئے گی تو ان مدارس کے ساتھ کیا کرے گی ہمیں پتہ ہے ہمیں پتہ ہے کہ بی جے پی نے آسام میں مدارس کے ساتھ کیا کیا لیکن ترنمول کانگریس ایسا کرے گی کسے پتہ تھا۔'
انہوں نے مزید کہا کہ مدرسہ کے متعلق ممتا سرکار کی وہی پالیسی رہی ہے جو بی جے پی کی پالیسی ہے۔ بی جے پی بھی مدرسوں کی ترقی نہیں چاہتی ہے ترنمول کانگریس بھی نہیں چاہتی ہے۔ گذشتہ دس برسوں میں ترنمول کانگریس کی طرف سے مدارس کی ترقی کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔'
انہوں نے کہا کہ مدرسہ تعلیمی نظام بربادی کے دہانے پر ہے۔ ان مدارس میں 45 فیصد اساتذہ کی کمی ہے۔ ایک سو نئے مدرسہ سیٹ اپ تیار کرنے کی بات تھی اس پر کوئی کام نہیں ہوا۔ 405 ایم ایس کے کا قیام عمل میں نہیں آیا ہے۔
بایاں محاذ نے جو کام کردیا تھا اس کا نھی انہوں اطلاق نہیں کیا۔ اس حکومت نے مدارس کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔
عبدالستار نے کہا کہ حکومت بہانہ کرتی ہے کہ بجٹ بڑھ گیا ہے جبکہ حکومت کا ان مدارس کو لے کر کوئی نیا پروجیکٹ ہی نہیں ہے تو بجٹ کیسے بڑھ سکتا ہے۔ مدرسہ کی بات ہے اسی لئے بجٹ بڑھنے کی فکر ہے، لیکن حکومت یہ بتائے کہ ہائر ایجوکیشن کا کتنا بجٹ بڑھا، اسکول ایجوکیشن کا بجٹ کتنا بڑھا۔ اس حکومت نے اقلیتوں کے لئے ایک بھی اچھا کام نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ میرے وقت میں انگریزی میڈیم مدرسوں کی تجویز رکھی گئی تھی ہم نے یہ پروجیکٹ شروع کیا تھا۔ انگریزی میڈیم مدارس میں 24 اساتذہ کی تقرری کی گئی جس میں صرف ایک مسلمان ہے۔
ممتا بنرجی کی حکومت میں وزیر اقلیتی امور و مدرسہ تعلیم رہے غیاث الدین ملا کا کہنا ہے کہ ممتا بنرجی کی حکومت میں اقلیتوں کے لئے بہت کچھ کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جتنا کام اقلیتوں کا ممتا بنرجی کی حکومت میں ہوا بایاں محاذ کے 34 سالہ حکومت میں نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ 235 ان ایڈیڈ ریکاگنائزڈ مدارس کے اساتذہ بھوک ہڑتال و دھرنا کر رہے تھے۔ ہماری حکومت نے ان کو بنیادی ڈھانچے کے لئے 44 کروڑ روپئے دیئے۔ ہمارے جو 624 سرکاری مدارس ہیں ایم ایس کے اور ایس ایس کے ہے وہ بہت بہتر طور پر چلائے جا رہے ہیں۔
ممتا بنرجی آزادی کے بعد پہلی وزیر اعلی ہیں جنہوں اتنا کام کیا ہے۔ بایاں محاذ کے 34 سالہ حکومت ایسا وزیر اعلیٰ ہم نہیں دیکھا ہے۔ جبکہ حالات کچھ اور ہی کہ رہے ہیں 235 ان ایڈیڈ ریکاگنائزڈ مدرسہ ٹیچرس نے 58 دنوں تک کولکاتا کے سالٹ لیک میں ریاستی حکومت کے خلاف احتجاج و مظاہرہ جاری رکھا۔
الیکش کمیشن کی جانب سے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کئے جانے کا بعد انہوں نے احتجاج و دھرنا ختم کر دیا لیکن ممتا حکومت کے خلاف ناراضگی برقرار ہے۔
وہیں ممتا بنرجی کے دس سالہ حکومت میں کئی تاریخی مدارس بند بھی ہوئے ہیں جس کے لیے لوگ ممتا بنرجی کی حکومت کو ذمہ دار مانتے ہیں۔ 200 سالہ تاریخی ہگلی مدرسہ بھی ممتا بنرجی کی حکومت میں ہی پوری طرح بند ہو گیا۔
اس سلسلے میں ہگلی مدرسہ کے سابق ہیڈ ماسٹر محمد ناصر کا کہنا ہے کہ بایاں محاذ کی حکومت میں ہی ہگلی مدرسہ کی تنزلی کا شکار ہو چکی تھی، لیکن ممتا بنرجی کی حکومت کی غفلت شیعاری اور مجرمانہ رویے نے اس کو بربادی کے دہانے تک لانے میں اہم رول ادا کیا ہگلی مدرسہ سہ لسانی مدرسہ تھا لیکن اس میں اساتذہ کی تقرری میں حکومت نے مجرمانہ کوتاہیوں کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں بچوں کی تعداد کم ہوتی گئی اور پھر اساتذہ کا دوسرے اسکولوں میں تبادلہ کر دیا گیا۔
پھر ہگلی مدرسہ کو انگریزی میڈیم مدرسہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن اس میں اساتذہ کی تقرری جب کی گئی تو تمام اساتذہ غیر مسلم طبقے سے تھے۔
جبکہ مدارس میں اساتذہ کی تقرری کے لئے اسلامی ثقافت و تہذیب سے واقفیت رکھنا ضروری ہے لیکن اس اصول کی پاسداری نہیں کی گئی۔ 1817 میں ہگلی مدرسہ، ہیر اسکول اور دی ہندو اسکول ایک ساتھ قائم ہوئے ہیر اسکول اور ہندو اسکول آج بھی پورے آب و تاب کے ساتھ قائم ہیں جبکہ ہگلی مدرسہ اپنی بربادی کی داستان سنا رہا ہے۔
مزید پڑھیں:
مغربی بنگال میں انجمن ترقی اردو کا پہلا اپنا دفتر، اردو گھر سے موسوم
ممتا بنرجی کے دور حکومت میں بنگال کے مدارس کے صورت حال اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ 6 برسوں میں کوئی تقرری نہیں ہوئی ہے۔ 45 فیصد آسامیاں خالی ہیں۔ ڈسٹرکٹ انفارمیشن اسکول ایجوکیشن سیشن 2015-16 کے مطابق اساتذہ و طلبا کا تناسب 1 بنام 60 ہے۔
ایک ہی ساتھ قائم ہونے والے ہیر اسکول اور ہندو اسکول پورے شان کے ساتھ آج بھی باقی ہیں جبکہ ہگلی مدرسہ بے بسی کی تصویر نظر آتی ہے۔