گورنر اور مغربی بنگال حکومت کے درمیان جاری رسہ کشی کے دوران ریاستی وزیر تعلیم پارتھو چٹرجی نے آج اسمبلی میں یونیورسٹیوں سے متعلق ایک نیا قانون پیش کیا ہے جس میں چانسلر (گورنر)کے اختیارات میں کمی کی ہے جس کے تحت اب گورنر یونیورسٹی کے معاملات میں براہ راست مداخلت نہیں کرپائیں گے۔
مغربی بنگال اسمبلی کا سرمائی اجلاس میں آج کا دن ترنمول کانگریس کے ممبران کے ذریعہ گورنر کو برطرف کرنے کے مطالبے کے ساتھ شروع ہوا۔
ترنمول کانگریس نے الزام عاید کیا ہے کہ گورنر جان بوجھ کر بلوں کو دبادیا ہیے جس کی وجہ سے اسمبلی میں کام کاج کو رخنہ پڑگیا ہے۔
اس درمیان ریاستی وزیر تعلیم پارتھو چٹرجی نے ایک نئے قانون کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ اب گورنر وزارت تعلیم کے ذریعہ یونیورسٹی انتظامیہ سے رابطے کرے گی۔
یونیورسٹی کے وائس چانسلروں کے انتخاب میں پہلے تین نام پیش کیے جاتے تھے جس میں گورنر کسی ایک نام کی منظوری دیدیتے تھے مگر نئے قانو کے مطابق اب صرف ایک ہی نام دئیے جائیں گے جسے گورنر کو منظور کرنا ہوگا۔
اسی طرح یونیورسٹی انتظامیہ گورنر اعزازی ڈاکٹریت کیلئے ناموں کی سفارش کرتی تھی۔اس فہرست کی منظوری یا پھر رد کرنا گورنر کی صوابدید پر تھا مگر اس نئے قانون کے مطابق اعزازی ڈگری کی فہرست وزارت تعلیم کو بھیجی جائے گی اور گورنر کو وزارت تعلیم فہرست بھیجے گی۔تاہم اس فہرست میں ردوبدل کرنے کا گورنر کو کوئی اختیار نہیں ہوگا۔
پہلے وائس چانسلر گورنر یعنی چانسلر کی ہدایت پر سینیٹ کی میٹنگ بلاتے تھے مگر اب نئے قانو نکے مطابق وائس چانسلر بذات خود میٹنگ طلب کرنے کے حقدار ہوں گے اور انہیں گورنر سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
یونیورسٹی کی گورننگ کمیٹی میں گورنر کے نمائندے کے انتخاب کا حق خود گورنر کو ہوتاتھامگر اب نئے قانون کے مطابق وزارت تعلیم تین نام کی سفارش کرے گی جن میں سے کسی ایک نام پر گورنر کو مہر لگانی ہوگی۔
اسی طرح چانسلر کو اگر یونیورسٹی سے کوئی شکایت ہے تو وہ براہ راست وائس چانسلر کو ہدایت جاری نہیں کرسکتے ہیں بلکہ گورنر کو ریاستی حکومت کے ذریعہ وائس چانسلر اور ریاستی حکومت کے ذریعہ رابطہ کرنا ہوگا۔
اسی طرح یونیورسٹی کے کام کاج میں مداخلت کرنے کا گورنر کو مداخلت کرنے کا کوئی ق نہیں ہے۔یونیورسٹی انتظامیہ سے گورنر براہ راست کوئی رابطہ نہیں کرسکتے ہیں۔اسی طرح یونیورسٹی سے متعلق کو’ئی بھی قانو ن کو تبدیل کرنے کا ریاستی حکومت کو حق ہے۔
: