مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتا کا کیلا بگان جو ایک گھنی آبادی اور محنت کش مزدور طبقے کی آبادی والا علاقہ ہے۔
کولکاتا کے دوسرے مسلم آبادی والے علاقوں میں بنسبت تعلیمی معاملے میں پسماندہ ہے، کیلا بگان کے 57 مدن موہن برمن اسٹریٹ کی ایک مخدوش عمارت میں رہنے والی فاطمہ اصلاحی جو حافظ قرآن ہیں نے اپنی چھوٹی بیٹی السمرین(جو بردوان میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس مکمل کرنے کے بعد اب انٹرنس شپ کر رہی ہے) کی کامیابی میں نہایت ہی اہم رول ادا کیا ہے۔
عام طور پر دیندار خواتین کے متعلق یہ تصور کیا جاتا ہے کہ یہ جدید قدیم نسل تعلیم سے نا آشنا ہوتی ہیں لیکن فاطمہ اصلاحی نے اپنی بیٹی کے ڈاکٹر بننے کے خواب کو زندہ رکھنے کے لیے کبھی بھی ان کو حوصلہ کو پست نہیں ہونے دیا۔
وہ گھر گھر جاکر بچوں کو عربی پڑھا کر اپنی بیٹی کی پڑھائی کے لیے تمام ضروریات کو پورا کرتی رہیں اور اس درمیان وہ بیمار بھی پڑیں لیکن ان کے عزم میں کبھی کوئی کوئی کمی نہیں آئی، انہوں نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میری بیٹی کو ڈاکٹر بننے کی لگن تھی تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ آسان نہیں تھا کیونکہ ڈاکٹر بننے کے لیے ذہانت کے ساتھ ساتھ روپے کی بھی ضرورت پڑتی ہے لیکن میں اپنی بیٹی کے خواب کو کسی بھی حال میں بکھرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتی تھی، میں کئی گھروں میں عربی کی تعلیم دینے جاتی تھی ان گھروں میں میں نے دیکھا کہ کیسے میڈیکل کی پڑھائی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لہذا میں نے اپنی بیٹی کو پورا موقع دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'میں نے میری بیٹی کوپڑھائی کرنے کے لیے پوری طرح گھر کے کام سے دور رکھا تا کہ اسے پڑھائی کے لیے زیادہ وقت مل سکے انہوں نے بتایا ان کی بیٹی کی اس کامیابی میں اللہ تعالی کی خاص مہربانی رہی۔
اس کے علاوہ ہمارے کچھ بہی خواہ نے بھی ہماری مدد کی۔
السمرین(طالبہ) نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ان کی کامیابی میں ان کی والدہ کا نہایت ہی اہم رول رہا، دن رات کی پرواہ کئے بغیر اپنی صحت کی پرواہ کئے بغیر ہمیشہ میری تعلیم کے لیے کھڑی رہیں۔
اس دوران کئی بار مشکل دور سے گزرنا پڑا اور کئی بار مجھے لگا کہ میرا خواب پورا نہیں ہو پائے گا لیکن میری والدہ نے میرا حوصلہ بڑھایا اور ان کی وجہ سے میں آج اس مقام پر پہنچی ہوں ۔