اردو رسائل و جرائد کی گھٹتی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ پورے کولکاتا شہر میں اردو رسائل و جرائد کے صرف تین ہی بک اسٹال باقی رہ گئے ہیں، جبکہ کبھی صرف کولکاتا شہر میں سینکڑوں ایسے بک اسٹال تھے۔ ہزاروں خریدار لیکن اردو رسائل و جرائد کا کوئی خریدار نہیں۔
ریاست مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتا اپنی ادبی سرگرمیوں کے لیے پورے ملک میں مقبول ہے۔ بنگلہ زبان کے ساتھ ساتھ بنگال میں اردو زبان و ادب کو فروغ حاصل ہوا۔
یہاں کا اردو قاری ایک زمانے میں اپنی مثال آپ تھا، لیکن گزشتہ کئی برسوں میں لکھنے پڑھنے کا رجحان کافی متاثر ہوا ہے۔ اب کولکاتا شہر میں پہلے جیسے قاری نہیں رہے۔
اس کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ کولکاتا شہر میں اردو رسائل و جرائد کے خریدار نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس شہر کے ہر گلی محلے میں کتابوں اور اردو رسائل و جرائد کے اسٹال ہوا کرتے تھے اب صرف اتنے رہ گئے ہیں کہ افسوس کرنے اور اردو زبان کی قسمت پر رونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا ہے۔
اردو کی نصابی کتابوں کی تو دکانیں بہت ہیں، پر ایسی دکانیں جہاں تواتر سے اردو رسالے اور جریدے آسانی سے مل جائے پورے کولکاتا میں تین ہی رہ گئے ہیں۔ اس طرح ایک بک اسٹال جو سو سال سے بھی پرانا ہے۔ وہ کولکاتا کے تاریخی ادارہ مسلم انسٹیٹیوٹ کے پاس شوکت بک اسٹال ہے۔
ایک رپن اسٹریٹ کی طرف رضوان بک اسٹال اور ایک زکریا اسٹریٹ میں ہے۔ یہ تینوں بک اسٹال خصوصی طور پر اردو کو ادبی رسالے اور جرائد کے لیے مشہور ہیں۔
آخر اردو کے قارئین اردو رسائل و جرائد کی طرف سے منھ پھیرنے کی وجہ کیا ہے؟ اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت نے کچھ لوگوں سے بات کی جنہوں نے وہ سنہرا دور دیکھا ہے جب ایک ایک اسٹال سے اردو زبان و ادب کا معروف رسالہ آج کل کی تین سو کاپیاں فروخت ہوا کرتی تھی۔
مسلم انسٹی ٹیوٹ کے جنرل سیکریٹری اور سابق اسسٹنٹ کمشنر کولکاتا پولیس نثار احمد نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے اس سلسلے میں بتایا کہ، 'ایک زمانہ تھا کہ اردو رسائل و جرائد ہاتھوں ہاتھوں فروخت ہوا جایا کرتے تھے۔ جبکہ اس زمانے میں اس طرح کے بک اسٹال پورے شہر میں سینکڑوں کی تعداد میں تھے۔'
انہوں نے بتایا کہ، 'کولکاتا کے گرانڈ ہوٹل کے نیچے بھی ایک زمانے میں اردو کے معروف رسالے اور جریدے فروخت ہوا کرتے تھے۔'
انہوں نے بتایا، 'آج کل لوگ پہلے کی طرح نہیں پڑھ رہے ہیں۔ دوسری وجہ موبائل اور انٹر نیٹ ہو سکتی ہے۔ انٹرنیٹ پر بہت سی چیزیں دستیاب ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ، 'لائبریری میں بھی قاری کی تعداد کم ہوئی ہے۔ ہمارے یہاں قاری پیدا نہیں ہو رہے ہیں، جبکہ کتابیں تو بڑی تعداد میں شائع ہو رہی ہیں۔ لیکن لوگ پڑھنے کے لیے بھی انٹرنیٹ کا استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن قرطاس پر اترنے والے الفاظ کی بات ہی اور ہے۔ ہمیں اردو قاری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔'
کولکاتا کے سب سے قدیم بک اسٹال جو اردو رسائل و جرائد کے لئے مشہور ہیں۔ مسلم انسٹی ٹیوٹ کے پاس موجود شوکت بک اسٹال 1912 سے اردو زبان و ادب کے رسالے اور کتابوں کا اہم مرکز ہے۔
اردو زبان کا کوئی ادیب اسکالر اگر کبھی کولکاتا آتا ہے، تو اس بک اسٹال کی طرف رخ ضرور کرتا تھا۔ شوکت بک اسٹال کے مالک شوکت علی نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے اردو رسائل و جرائد کی گھٹتی مقبولیت کے سلسلے میں کہا کہ، 'سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اب قاری نہیں رہے۔ دوسری بات کہ رسالے میں لوگوں کی ضروت کی کوئی چیز مل گئی تب ہی خریدتے ہیں۔ جبکہ جو لوگ اردو زبان کی روٹی کھا رہے وہ بھی رسالے نہیں خرید رہے ہیں۔ دوسری وجہ موبائل اور انٹرنیٹ بھی ہے۔'
مزید پڑھیں:
راجکوٹ سے مغربی بنگال تک ضروری سامان کی 84 ہزار کلوگرام نقل و حمل
انہوں نے بتایا کہ، 'پہلے ہم براہ راست اردو کے رسالے منگواتے تھے جب ہمارے آج کل، ایوان اردو جیسے رسالوں دو سو کاپیاں فروخت ہوتی تھیں۔ لیکن اب یہ حال ہے کہ دس کاپیاں بھی فروخت نہیں ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہم ایجنسی سے چار پانچ کاپیاں منگوا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پورے کولکاتا میں اس طرح کے بک اسٹال تین ہی رہ گئے ہیں۔ اردو کے نام لیوا بہت ہیں اردو کی کھاتے بھی ہیں، لیکن کوئی اردو پر خرچ نہیں کرنا چاہتا ہے۔'