مغربی بنگال وزارت اقلیتی امور و مدرسہ تعلیم کے تحت چلنے والی بنگال کی واحد اقلیتی عالیہ یونیورسٹی ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔ عالیہ یونیورسٹی ٹیچرس ایسوسی ایشن نے وزارت اقلیتی امور کے وزیر غلام ربانی کے نام پانچ صفحاتی خط لکھ کر سنگین الزامات لگائے ہیں کہ ’وزارت اقلیتی امور و مدرسہ تعلیم کی بیجا مداخلت کی وجہ سے عالیہ یونیورسٹی کو تعلیمی و مالی بحران کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں ریاستی بجٹ میں عالیہ یونیورسٹی کیلئے مختص بجٹ کو وزارت اقلیتی امور کی جانب سے جاری نہیں کیا جا رہا ہے۔
وزیر اقلیتی امور کے نام خط میں اساتذہ نے 2011 سے اب تک کے مالی لین دین اور دیگر معاملات کیلئے یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف جانچ کمیٹی بنائے جانے پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وزارت اقلیتی امور و مدرسہ تعلیم کو عالیہ یونیورسٹی میں مالی لین دین اور دیگر گڑبڑیوں کے الزامات جانچ کمیٹی یا پھر انکوائری کمیٹی تشکیل دینے کا اختیار ہے مگر اس کمیٹی میں صرف افسران کی شمولیت یونیورسٹی کے سینئر عہدیدار، سابق وائس چانسلر، رجسٹرار اور دیگر ماہرین تعلیم کی عدم موجودگی افسوسناک ہے۔ دوسرے یہ کہ کمیٹی نے اساتذہ کی تقرری میں تحریری امتحانات کے نتائج سے متعلق سوال کیا گیا ہے جب کہ ملک کی کسی بھی یونیورسٹی میں اساتذہ کی تقرری کیلئے تحریری امتحانات نہیں ہوتے ہیں۔اسی طرح باضابط کوئی شکایت نہیں ہونے کے باجوجود 2015 سے اب تک کے مختلف فائلوں کی کاپی کو طلب کیا جارہا ہے۔
خط میں وزارت اقلیتی امور کی جانب سے فنڈ جاری کرنے میں تاخیر اور ٹال مٹول پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وزارت اقلتی امور کی بے جا مداخلت کی وجہ سے یونیورسٹی کو بحران کا سامنا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بحران گہرا ہوتا جارہا ہے۔ایسے حالات میں ہم اساتذہ جو یونیورسٹی کے ایک اہم اسٹاک ہولڈر ہیں خاموش نہیں رہ سکتے ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اس سال 2021-2022 کے بجٹ میں ریاستی بجٹ میں عالیہ یونیورسٹی کیلئے 115کروڑ روپے مختص کرنے کا اعلان کیا گیا تھا مگر پہلی سہ ماہی میں یونیورسٹی کیلئے 30کروڑ روپے جاری کرنے تھے مگر اب تک ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا گیا ہے۔اسی طرح گزشتہ مالی سال2020-2021کے بجٹ میں عالیہ یونیورسٹی کیلئے مختص 112کروڑ روپے مکمل طور پر جاری نہیں کیا گیا ہے اس کی وجہ سے یونیورسٹی کے بہت سارے پروجیکٹ التوا کے شکار ہوگئے ہیں۔
27اگست کو عالیہ یونیورسٹی کے اساتذہ کی تنظیم کے ذریعہ ریاستی وزیر غلام ربانی کے نام لکھے گئے خط میں کہا گیاہے کہ یونیورسٹی کے بحران سے متعلق اس سے قبل 8جولائی کو بھی خط لکھا گیا تھا مگر حالات میں بہتری آنے کے بجائے حالات مزید خراب ہوگئے ہیں۔اس خط میں تین ایشوز کو اٹھائے گئے ہیں۔پہلی ایشو عالیہ یونیورسٹی میں مالی لین دین، اساتذہ و دیگر عملہ کی تقرری میں گربڑی اور بدعنوانی کی شکایت جانچ کمیٹی کی تشکیل پر سوالات کھڑے کئے گئے ہیں۔دوسری طرف وزارت اقلیتی امور کے ذریعہ یونیورسٹی کے لئے فنڈ اجرا میں تاخیر پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا ہے ۔تیسرے ایشو ز میں عالیہ یونیورسٹی کا میابی اور کارکردگی کو تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ یونیورسٹی اپنے قیام سے اب تک بہتر کارکردگی کا مظاہر ہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔
چند روز قبل ریاستی محکمہ اقلیتی امور اور مدرسہ تعلیم کی جانب سے ایڈیشنل سکریٹری نے ایک نوٹس میں کہا کہ عالیہ یونیورسٹی میں انتظامی بے ضابطگیوں، مالی اور تعلیمی معاملات کے الزامات کی بنیاد پر چار رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔وہ ایک ماہ کے اندر اس کمیٹی کو رپورٹ کریں گے۔ لیکن اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا کہ آیا عالیہ یونیورسٹی کو ریاستی حکومت کی طرف سے مختص رقم مل رہی ہے۔
خیال رہے کہ اب تک وزارت اقلیتی امور ممتا بنرجی کے تحت تھا مگر اس مرتبہ غلام ربانی کو وزارت اقلیتی امور کا آزادانہ چارج دیا گیا ہے۔امید تھی کہ اس کی وجہ سے وزارت اقلیتی امور کے کام کاج میں تیزی آئے گی مگر عالیہ یونیورسٹی کے اساتذہ نے اس پر ہی سوال کھڑا کردیا ہے کہ وزارت اقلیتی امور کی وجہ سے عالیہ یونیورسٹی مالی بحران کا شکار ہے۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ وزارت اقلیتی امور و مدرسہ تعلیم نے مالی 2020-21کیلئے یونیورسٹی کے تعلیمی اور دیگر انفراسٹرکچر کی ترقی سے متعلق کوئی فنڈ فراہم نہیں کیا، اور موجودہ مالی سال 2021-22 میں یونیورسٹی کیلئے 115کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں مگر یونیورسٹی نے 11جون 2021کو وزارت اقلیتی امور کو خط لکھ کر پہلی سہ ماہی کیلئے 30کروڑ روپے فنڈ جاری کرنے کی درخواست کی لیکن ابھی تک ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا گیا۔ اسی طرح گزشتہ مالی سال 2020-21 کے لیے ریاستی بجٹ میں عالیہ یونیورسٹی کے لیے 112 کروڑ مختص کیے گئے تھے۔ تاہم، یونیورسٹی کو صرف روزانہ کی دیکھ بھال کے لیے 'دیگر گرانٹ کیلئے پر صرف 10 کروڑ روپے دیے گئے۔ یونیورسٹی کی تعلیمی اور تحقیقی سرگرمیاں اس کی وجہ سے متاثر ہوئیں۔یونیورسٹی لیبارٹری اوردیگر سامان کی خریداری نہیں کرسکتی۔یہ صورت حال انتہائی شرمنا ک ہے۔
موجودہ مالی سال میں وزارت اقلیتی امور نے اب تک کوئی بھی گرانٹ عالیہ یونیورسٹی کیلئے جاری نہیں ہوا ہے۔ہمیں معلوم ہوا ہے کہ سیکورٹی گارڈز، ہاؤس کیپنگ عملے کی تنخواہ بنیادی طور پر غریب خواتین کے سیلف ہیلپ گروپس، کچھ محکموں میں ریٹائرڈ گیسٹ اساتذہ کی تنخواہیں مہینوں سے ادا نہیں کی گئیں۔ یہ ایک غیر انسانی عمل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مغربی بنگال میں اقلیتی طبقات خوشحال ہیں: احتشام الحق
اس کے علاوہ عالیہ یونیورسٹی کے اساتذہ کو مغربی بنگال حکومت کی طرف سے متعارف کی گئی صحت اسکیم سے محروم کرنے کا بھی وزارت اقلیتی امور پر الزام لگاتے ہوئے خط میں کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومت کی جانب سے متعارف کروائی گئی صحت اسکیم کے فوائد مغربی بنگال کی دیگر یونیورسٹیوں کے اساتذہ ایک عرصے سے مستفید ہو رہے ہیں۔ تاہم عالیہ یونیورسٹی کے اساتذہ اس سے محروم ہیں کیوں کہ یہ فائل وزارت اقلیتی امور میں زیر التوا ہیں۔ٹیچرس ایسوسی ایشن نے کہا کہ کورونا جیسے وباء کے دوران اس فائل کو روکے رکھنا وزارت اقلیتی امور کی بے حسی کو ظاہر کرتا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ دس سالوں سے لگاتار یونیورسٹی مختلف بحران کا سامنا رہا ہے۔سابق وائس چانسلر کے دور سے ہی مالی بے ضابطگیوں کی شکایت آتی رہے۔اس دور میں بھی ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی گئی تھی۔اس کمیٹی نے کئی مالی بے ضابطگی کی طرف اشارہ دیا تھا۔مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کے اشتراک ”اسکیل ڈیولپمنٹ“کیلئے ایک فنڈ جاری کیا گیا۔عالیہ یونیورسٹی کو اس کی ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ اقلیتی علاقوں میں نوجوانوں کو اسکیل دیولپمنٹ ٹریننگ کی ذمہ داری کو سنبھالے۔مگر ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے ایسے اداروں کو اسکیل ڈیولپمنٹ کی ذمہ داری دی گئی تھی جو صرف کاغذ پر ہی موجود ہے۔کہاجاتا ہے کہ یہ کم سے کم سو کروڑ روپے کا گھوٹالہ ہے۔اس میں عالیہ یونیورسٹی کی سینئر عہدیدار اور وزارت اقلیتی امور کے افسران اور کئی سینئر سیاسی لیڈران ملوث ہیں۔ اساتذہ یونین کے اس خط پر اب تک وزارت اقلیتی امور کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا ہے۔
یو این آئی