نئی دہلی:طیبن نشا، جن کا تعلق ضلع شیوساگر سے ہے۔ ایک متوسط مسلم گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ جب وہ آٹھویں جماعت کی طالبہ تھیں تو ان کے والدین کا انتقال ہوگیا تھا۔کھیلوں سے دلچسپی کم عمری میں ہوگئی تھی۔ ایک قدامت پسند گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے انہیں کھیلوں میں حصہ لینے کے لیے اپنے ابتدائی دنوں میں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن یہ رکاوٹیں ان کو مقاصد کے حصول سے نہیں روک سکیں۔
کم عمری میں اپنے والدین کو کھونا، ان کی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ تھا، لیکن نشا کوگھرکی ذمہ داریوں نے زندگی میں مشکلات کا مقابلہ کرنے کی ہمت دی۔ سال 1971 میں نشانے 9ویں انٹر اسٹیٹ ایتھلیٹک چیمپئن شپ میں حصہ لیا اور احمد آباد میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ اس ٹورنامنٹ میں نشا نے کانسہ کا تمغہ جیتا اور قومی چیمپئن شپ میں تمغہ جیتنے والی اپنی ریاست آسام کی پہلی خاتون کھلاڑی بن کر کھیلوں میں تاریخ رقم کی۔
جس زمانے میں طیبن نشا کھیلوں میں کچھ کرنے اور ملک کا نام روشن کرنے کا سوچ رہی تھیں وہیں ا ن کے قرب و جوار میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو باہر نکلنے والی لڑکیوں کے بارے میں ایسی باتیں کیا کرتے تھے جو بیرونی سرگرمیوں میں حصہ لینے نکلتی تھیں۔ لیکن نشا نے ان سب کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ بحران کی اس گھڑی میں یہ لوگ مددتو لازماً کریں گے ہی نہیں کریں۔
یہ بھی پڑھیں:آئی سی سی نے دو طرفہ سیریز کے لیے ریڈفرن کونیوٹرل خاتون امپائر مقرر کیا
اس کے برعکس باقی گھر والوں نے نشا کو مزید مضبوط اور حوصلہ بخشا۔جس وقت نشا کھیل کی پریکٹس کیا کرتی تھیں اس وقت ان کے پاس مشق کرنے کی زیادہ سہولیات میسر نہیں تھی لیکن وہ ہمیشہ ذہنی طور پر ہر چیز کے لئے تیار رہتی تھیں۔نشا کو اس بات کا یقین تھا کہ ان کی لگن ہی ان کو کامیابی کی طرف لے جا سکتی ہے۔
یو این آئی