پرو وائس چانسلر چرنجن نے کہا کہ 'یہ فیصلہ گزشتہ ہفتے مرکزی وزیر بابل سپریہ کے پروگرا م کو لے کر ہوئے تنازع کے بعد کیا گیا ہے۔ پہلے بابل سپریہ کے ساتھ طلباء کے ایک گروپ نے بدسلوکی کی اس کے بعد 19ستمبر کو یونین روم میں توڑ پھوڑ کی گئی'۔
پرو وائس چانسلر نے کہا کہ طلباء تنظیم کی جانب سے یونیورسٹی کیمپس میں کسی بھی سیاسی رہنما کو مدعو کرنے اور ان کو پروگرام کی اجازت دینے سے قبل ہر قسم کی احتیاطی کارروائی کی جائے گی تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ رجسٹرڈ یونین جیسے آر ٹ فیکلٹی، سائنس فیکلٹی اور انجینئرنگ وتکنالوجی اسٹوڈننس فیکلٹی کو اپنے روم میں پروگرام کی اجازت ہوگی۔
خیال رہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے تمام رجسٹرڈ یونین پر لیفٹ نظریات کے حامل طلباء کا قبضہ ہے۔ دوسری جانب ا س فیصلے کی تنقید کرتے ہوئے اکھل بھارتیہ ودیارتی پریشد نے کہا ہے کہ جادو پور یونیورسٹی انتظامیہ جانبداری سے کام لے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بابل سپریہ کو سیاست داں نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ وہ ایک مشہور گلوکار اور مرکزی وزیر ہیں۔ایک وزیر کو سیاسی رہنما کے طور پر نہیں لینا چاہیے۔