ETV Bharat / state

سیاسی جماعتیں خود کا محاسبہ کریں

بنگلہ فلموں کے مشہور ڈائریکٹر کملیشور مکھرجی نے بنگال کے رخصت پذیر گورنر کیسری ناتھ ترپاٹھی کے وزیراعلیٰ ممتا بنرجی حکومت سے متعلق بیان  کو جائز قرارا دیا ہے ۔

سیاسی جماعتیں خود کا محاسبہ کریں
author img

By

Published : Jul 29, 2019, 6:00 PM IST

انہوں نے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کہا ہے اور جس کی طرف اشارہ کیا ہے وہ درست ہیں مگر کیسری ناتھ ترپاٹھی جو مرکز کے نمائندے کی حیثیت سے یہاں مقیم تھے کیا وہ اپنی حکومت کے رویے سے متعلق کچھ بول سکتے ہیں۔

کملیشور مکھرجی نے کہا کہ کیسر ی ناتھ ترپاٹھی اور اس سے قبل ترنمول کانگریس کی ممبر پارلیمنٹ مہوا مترا نے پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر مرکزی حکومت کے رویہ سے متعلق جس کی نشاندہی کی ہے وہ صدفیصد درست ہیں مگر کیا دونوں اپنی پارٹی کے نظریات، آئیڈیولوجی اورطریقے کار پر توجہ دیں گے۔

خیال رہے کہ کیسری ناتھ ترپاٹھی جو بنگال میں 5سالوں تک گورنر کے عہدہ پر فائز رہنے کے بعد رخصت ہورہے ہیں نے اپنی وداعی انٹرویو میں کہا کہ ممتا بنرجی کے پاس ویژ ن ہے مگر ان کی خوشامدانہ پالیسی کی وجہ سے بنگال میں لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے اور ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی کیلئے ممتا بنرجی کی پالیسی ذمہ دار ہے۔کیسری ناتھ ترپاٹھی نے اپنے دوسرے انٹرویو میں کہا کہ ممتا بنرجی کا در اندازوں کے تئیں رویہ نرم ہے اس کی وجہ سے ریاست میں لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پید ا ہوگیا ہے۔

اسی طرح کرشنا نگر سے منتخب ترنمو ل کانگریس کی ممبر پارلیمنٹ نے مہوا مترا نے ملک میں فسطائی نظام کی چند علامتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مرکز میں جس طریقے سے حکمرانی کی جارہی ہے وہ فسطائیت کی علامتوں سے مماثل ہیں۔روپے کی طاقت کے ذریعہ عوام کی رائے عامہ کو متاثر کیا جارہا ہے۔میڈیا کومکمل طور پر کنٹرول کرلیا گیا ہے۔

بنگلہ فلموں کے ڈائریکٹر کملیشور نے ان دونوں لیڈروں کے بیان سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ کیسری ناتھ ترپاٹھی اور مہوا مترا نے جو کچھ کہا ہے کہ وہ صد فیصد درست ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیسری ناتھ ترپاٹھی جو بی جے پی کے لیڈر ہیں کیا وہ اس کا جواب دیں گے کہ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں کیا ہورہا ہے۔کیاں وہا ں اکثریت نوازی کی پالیسی نہیں اپنا ئی ہے گئی ہے۔اسی طرح مہوا مترا کو ابس بات کوجواب دینا چاہیے کہ کیا بنگال حکومت میں فسطائیت کے علامات نہیں پائے جاتے ہیں۔تو پھر تنقید کرنے سے قبل اپنی اصلاح کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔

خیال رہے کہ جے شری رام کے نام پر تشدد کے واقعات پر مختلف شعبہ زندگی سے وابستہ 49افراد نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیرا عظم مودی کے نام کھلا خط لکھتے ہوئے جے شری رام کے نعرے کے نام پہورہے تشدد کے واقعات پر قابوپانے کیلئے اقدمات کرنے کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔اس خط کے عام ہونے کے بعد مخالفت اور حمایت میں آوازیں بلند ہونے لگیں بعد میں مودی حامی فلمی شخصیات نے خط لکھ پہلے لکھے گئے خط کی سخت تنقید کی اور الزام عاید کیا کہ یہ ملک کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ساتھ یہ بھی کہا کہ جب پنچایت انتخابات کے دوران تشدد کے واقعات رونما ہورہے تھے اس وقت یہ لوگ آواز کیوں نہیں بلند کرتے ہیں۔تاہم اب خطوط کے تبادلے کے دوران کملیشور مکھرجی نے ایک نئی بحث شروع کردی ہے۔

کملیشور نے لکھا ہے کہ پریشانیاں سیاسی رہنماؤں کے درمیان میں ہی ہے۔ایک دوسرے کی تنقید کرتے ہیں مگر اپنے ضمیر اور رویے کی تنقید کرتے ہیں مگر خود کا محاسبہ نہیں کرتے ہیں ان کی پارٹی رویہ جمہوری ہے؟ کیا پارٹی کی آئیڈیو لوجی، طریقے کار سے ملک میں جمہوریت محفوظ رہ سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ دائیں بازوں کے لوگ دوسروں کو ملک مخالف کہنے سے نہیں گریز نہیں کرتے ہیں مگر خود ہی نفرت اور انتہاپسندی کی مارکیٹنگ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کہا ہے اور جس کی طرف اشارہ کیا ہے وہ درست ہیں مگر کیسری ناتھ ترپاٹھی جو مرکز کے نمائندے کی حیثیت سے یہاں مقیم تھے کیا وہ اپنی حکومت کے رویے سے متعلق کچھ بول سکتے ہیں۔

کملیشور مکھرجی نے کہا کہ کیسر ی ناتھ ترپاٹھی اور اس سے قبل ترنمول کانگریس کی ممبر پارلیمنٹ مہوا مترا نے پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر مرکزی حکومت کے رویہ سے متعلق جس کی نشاندہی کی ہے وہ صدفیصد درست ہیں مگر کیا دونوں اپنی پارٹی کے نظریات، آئیڈیولوجی اورطریقے کار پر توجہ دیں گے۔

خیال رہے کہ کیسری ناتھ ترپاٹھی جو بنگال میں 5سالوں تک گورنر کے عہدہ پر فائز رہنے کے بعد رخصت ہورہے ہیں نے اپنی وداعی انٹرویو میں کہا کہ ممتا بنرجی کے پاس ویژ ن ہے مگر ان کی خوشامدانہ پالیسی کی وجہ سے بنگال میں لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے اور ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی کیلئے ممتا بنرجی کی پالیسی ذمہ دار ہے۔کیسری ناتھ ترپاٹھی نے اپنے دوسرے انٹرویو میں کہا کہ ممتا بنرجی کا در اندازوں کے تئیں رویہ نرم ہے اس کی وجہ سے ریاست میں لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پید ا ہوگیا ہے۔

اسی طرح کرشنا نگر سے منتخب ترنمو ل کانگریس کی ممبر پارلیمنٹ نے مہوا مترا نے ملک میں فسطائی نظام کی چند علامتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مرکز میں جس طریقے سے حکمرانی کی جارہی ہے وہ فسطائیت کی علامتوں سے مماثل ہیں۔روپے کی طاقت کے ذریعہ عوام کی رائے عامہ کو متاثر کیا جارہا ہے۔میڈیا کومکمل طور پر کنٹرول کرلیا گیا ہے۔

بنگلہ فلموں کے ڈائریکٹر کملیشور نے ان دونوں لیڈروں کے بیان سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ کیسری ناتھ ترپاٹھی اور مہوا مترا نے جو کچھ کہا ہے کہ وہ صد فیصد درست ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیسری ناتھ ترپاٹھی جو بی جے پی کے لیڈر ہیں کیا وہ اس کا جواب دیں گے کہ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں کیا ہورہا ہے۔کیاں وہا ں اکثریت نوازی کی پالیسی نہیں اپنا ئی ہے گئی ہے۔اسی طرح مہوا مترا کو ابس بات کوجواب دینا چاہیے کہ کیا بنگال حکومت میں فسطائیت کے علامات نہیں پائے جاتے ہیں۔تو پھر تنقید کرنے سے قبل اپنی اصلاح کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔

خیال رہے کہ جے شری رام کے نام پر تشدد کے واقعات پر مختلف شعبہ زندگی سے وابستہ 49افراد نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیرا عظم مودی کے نام کھلا خط لکھتے ہوئے جے شری رام کے نعرے کے نام پہورہے تشدد کے واقعات پر قابوپانے کیلئے اقدمات کرنے کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔اس خط کے عام ہونے کے بعد مخالفت اور حمایت میں آوازیں بلند ہونے لگیں بعد میں مودی حامی فلمی شخصیات نے خط لکھ پہلے لکھے گئے خط کی سخت تنقید کی اور الزام عاید کیا کہ یہ ملک کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ساتھ یہ بھی کہا کہ جب پنچایت انتخابات کے دوران تشدد کے واقعات رونما ہورہے تھے اس وقت یہ لوگ آواز کیوں نہیں بلند کرتے ہیں۔تاہم اب خطوط کے تبادلے کے دوران کملیشور مکھرجی نے ایک نئی بحث شروع کردی ہے۔

کملیشور نے لکھا ہے کہ پریشانیاں سیاسی رہنماؤں کے درمیان میں ہی ہے۔ایک دوسرے کی تنقید کرتے ہیں مگر اپنے ضمیر اور رویے کی تنقید کرتے ہیں مگر خود کا محاسبہ نہیں کرتے ہیں ان کی پارٹی رویہ جمہوری ہے؟ کیا پارٹی کی آئیڈیو لوجی، طریقے کار سے ملک میں جمہوریت محفوظ رہ سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ دائیں بازوں کے لوگ دوسروں کو ملک مخالف کہنے سے نہیں گریز نہیں کرتے ہیں مگر خود ہی نفرت اور انتہاپسندی کی مارکیٹنگ کرتے ہیں۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.