ادب کا موضوع انسانی زندگی ہے اور یہ سیاست سے دامن بچا نہیں سکتا۔ ہماری ادبی سیاست میں چشمک ہمیشہ سے ہے۔ ہمیں حسب ضرورت زمان و مکان کے سیاق دریافت کرنے ہوں گے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے کل شام شعبہ اُردو ویسٹ بنگال اسٹیٹ یونیورسٹی (باراسات) اور آئی کیو اے سی، ویسٹ بنگال اسٹیٹ یونیورسٹی کے اشتراک سے شہنشاہ متغزلین میر تقی میر پر ایک روزہ قومی ویبینار میں کیا۔
یہ ویبینار مغربی بنگال کی کسی یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کا پہلا قدم تھا۔ اس کی صدارت پروفیسر معین الدین جینا بڑے (جواہر لال نہرو یونیورسٹی) نے فرمائی۔ تعارفی کلمات پروفیسر ارون ہوتا (ڈائریکٹر، آئی کیو اے سی، ویسٹ بنگال اسٹیٹ یونیورسٹی) نے ادا کئے۔
مقررین حضرات میں پروفیسر شائع قدوائی (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) اور پروفیسر شہاب الدین ثاقب (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے موضوع کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔
نظامت کے فرائض ڈاکٹر رضی شہاب (شعبہ اردو، ڈبلیو بی ایس یو) نے ادا کئے اور ہدیہ تشکر ڈاکٹر تسلیم عارف (شعبہ اُردو، ڈبلیو بی ایس یو) نے پیش کیا۔
پروفیسر ارون ہوتا نے کہا کہ اس یونیورسٹی کی عمر محض گیارہ سال ہے جس نے پانچ سال قبل پروفیسر باسب چودھری کو وائس چانسلر کی حیثیت سے پایا ہے۔ اس یونیورسٹی نے اتنے کم عرصے میں جو ترقی کی ہے، اس کا ثبوت آپ کے سامنے ہے۔
پروفیسر ارون ہوتا نے میر کی مختصر سوانح حیات بیان کرنے کے ساتھ ان کے چند مشہور اشعار بھی سنائے اور یہ کہتے ہوئے اپنی بات ختم کی کہ مذہب کے نام پر آج جو کچھ بھی ہورہا ہے، ہم کو ایسے میں بہت سمجھ داری سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
پروفیسر شافع قدوائی نے فرمایا کہ میر کے بارے میں کوئی نئی بات کہنا مشکل ہے۔ بہت سی غلط فہمیاں راہ پا گئی ہیں۔ مثلاً 'میر کے بہتر نشتر'، 'آہ کے شاعر' وغیرہ۔ یہ سلسلہ 'آبِ حیات' سے شروع ہوتاہے۔ کلام پڑھ کر اگر ہنسنا یا رونا آجائے تو یہ کلام کی تاثیر ہے۔ زندگی میں اقدار کی جیت ہوتی ہے، جیسے کربلا میں حسین کی ہوئی۔ انسان اپنی جبلتوں میں زندہ ہے اور میر انسان تک پہنچنا چاہتے تھے۔ ان کی شاعری انسان اور وجود کی شاعری ہے۔ انہوں نے نیا شعری محاورہ بیان کیا۔ میر کو نئے سرے سے دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔
پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے 'میر تحقیق پر ایک نظر'کے حوالے سے اپنی گفتگو کی۔ آپ نے کہا نیر مسعود نے فارسی دیوان میر مرتب کردیا ہے۔ میر نے اپنی مشہور مثنوی 'دریائے عشق' فارسی نظم و نثر دونوں میں لکھی ہے۔
میر کے زمانے میں شاعروں کی اتنی بہتات ہوگئی تھی کہ بعض شعرا چوراہے پر کھڑے ہو کر اپنی غزلیں دو چار آنے میں فروخت کیا کرتے تھے۔ میر کی مخالفت کا آغاز ان کی مثنوی 'اجگرنامہ' سے ہوا اور 'نکات الشعرا' نے بھی اسے بڑھاوا دیا۔ ان کے خلاف کئی تذکروں نے محاذ کھڑا کیا جن میں سعادت خاں ناصر پیش پیش تھے، جنھوں نے تذکرہ نویسی کے سارے مروجہ اصول سے انحراف کرتے ہوئے سودا کے ذکر سے اپنے تذکرے کا آغاز کیا ہے۔ اس میں میر کی تضحیک، تحقیر بلکہ تذلیل کی گئی ہے۔
پروفیسر ثاقب نے میر کے تعلق سے بہت ساری غلط فہمیوں کی نشاندہی کی اور اس سلسلے میں میر کے والد کا نام، سادات کا قضیہ، متنازع اشعار، تینوں نثری تصانیف اور کئی دیگر موضوعات پر جس طرح سیر حاصل باتیں کیں، وہ ان کی وسعت مطالعہ اور زبردست قوتِ حافظہ کا پتہ دیتی تھیں۔
اس دوران جاوید رحمانی اور عاطف نثار نجمی نے سوالات کئے جن کے جواب دیے گئے۔ پروفیسر ارون نے اختتامی کلمات کے طور پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مقررین نے اپنے موضوع سے پورا پورا انصاف کیا ہے۔
ڈاکٹر تسلیم عارف نے شکریہ کے کلمات ادا کئے اور یہ بتایا کہ یہ ویبینار اس یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کا پہلا ویبینار ہے۔ اس سے قبل ریاستی سطح کی کسی بھی یونیورسٹی کے شعبہ اُردو نے یہ اہتمام نہیں کیا ہے۔ ویبینار سے آخری وقت تک پچاس سے زائد لوگ جڑے رہے۔