مغربی بنگال کے اقلیتی طبقے کی تعلیمی صورت حال کو لیکر پہلے سے فکر مند مسلم اسکالرس نے اب مرکزی حکومت کی نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔مغربی بنگال میں پے ہی اعلی تعلیم میں مسلمانوں کی حالت تشویشناک ہے۔آل انڈیا اعلی تعلیم سروے 2019۔20 سروے کے مطابق گریجویشن سطح پر مسلم طلباء کی شرح صرف 12.3 فیصد ہے۔جبکہ پوسٹ گریجویشن سطح پر مسلم طلباء کی شرح 7.7 ہے۔ایم فل میں 6.4 اور پی ایچ ڈی میں 4 فیصد ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی جس میں تعلیم کی نجکاری پر زور دیا ہے جس کے نتیجے میں تعلیم غریب اور پسماندہ طبقے کے دسترس سے دور ہو جائے گی۔ Draft National Education Policy Anti-Minority
دوسری جانب پسماندہ طبقے اور مسلم طبقے جو پہلے سے تعلیمی میدان میں دوسرے طبقے کے بنسبت پیچھے رہ گئے ہیں ان کے لئے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔اس کے علاوہ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں اعلی تعلیم تک حصولیابی کو محدود کر دیا گیا ہے۔نئی قومی تعلیمی پالیسی پسماندہ طبقے اور خاص طور پر مسلمانوں پر کیا اثر پڑے گا معروف ماہر معاشیات نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین کی تنظیم پراتیچی جس نے بنگال کے مسلمانوں کی تعلیمی و معاشی صورت حال ایک سروے رپورٹ تیار کی تھی سے تعلق رکھنے والے مسلم اسکالر صابر احمد نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی توداد بڑھانے پر زور دیا گیا ہے جبکہ سرکاری تعلیمی اداروں کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے، ایسا نہیں کیا گیا تو تعلیم مزید مہنگی ہوجائے گی۔
پسماندہ طبقے کے لئے اعلی تعلیم کے حصول یابی مشکل ہو جائے گی۔تعلیم پر حکومت کو زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے دوسری جانب ہر چیز میں یکتائی کی بات کہی جا رہی ہے۔ایک زبان کو مسلط کرنے کی بات کہی جا رہی ہے اس سے جو ہندوستان کثرت میں وحدت کی روایت ہے اس کو بھی نقصان پہنچے گا اور اس سے سب سے زیادہ مسلم اور دوسرے پسماندہ طبقے متاثر ہوں گے۔مرکزی حکومت کی۔نئی قومی تعلیمی پالیسی میں پیشہ وارانہ تعلیم پر زیادہ زور دیا گیا ہے، بظاہر یہ سب کو اچھا لگ رہا ہے لیکن ایک طرح سے اس کے ذریعے اعلی تعلیم تک رسائی کو مشکل بنانے کی کوشش ہے۔
دوسری جانب جب تعلیم کی نجکاری ہو جائے گی تو اعلی تعلیم کا حصول بہت مہنگا ہو جائے گا اور یہ پسماندہ طبقے تعلیمی سرگرمیاں محدود ہو جائیں گی۔ان حالات میں مسلمانوں اور دوسرے پسماندہ طبقے کو ملکر اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے اور اس پر غور و فکر کر نے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ ابھی تک یہ ایکٹ نہیں بنا ہے ہم اس کو چیلینج کر سکتے ہیں جس طرح سے جنوبی ہند کے لوگوں نے ہندی کو ادی پالیسی کے تحت مسلط کرنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا ہمیں اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔
مغربی بنگال میں مسلمانوں کی اعلی تعلیم کی حصولیابی اور اعلی تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی بڑھانے کے لئے کام کرنے والی الجبرا اکاڈمی کے بانی پروفیسر ربیع الاسلام نے کہا کہ ہمارے ملک میں جو اتنا تنوع ہے رنگ رنگی ہے ہمیں لگتا ہے جو تعلیم کی نجکاری کرنے کی نئی قومی تعلیمی پالیسی میں کوشش کی گئی ہے اس سے سماج خا جو پسماندہ طبقہ ہے جو معاشی طور پر کمزور ہے وہ بری طرح متاثر ہوگا اور وہ مزید پسماندگی کے شکار ہوں گے۔ہمیں لگتا ہے جو سرکاری تعلیمی ادارے ہیں اسی سے معاشرے کی بھلائی ہو سکتی ہے اور اسی سے تعلیم اور سماج میں مساوات لایا جا سکتا ہے۔جو نجی تعلیمی ادارے ہوں گے وہ تعلیم و سماج میں مساوات کے بارے نہیں سوچیں گے۔جبکہ تعلیم اور سماج میں مساوات قائم کرنے حکومت کا کام ہے لیکن حکومت کی نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 ہمیں لگتا ہے معاشرے کے کمزور طبقے پر بھاری پڑ سکتا ہے اور ان کو تعلیم سے مزید دور کر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
Open Firing in Barrackpore: شمالی 24 پرگنہ کے بیرکپور میں سرعام فائرنگ، دو افراد شدید زخمی
مرکزی حکومت کی جانب سے پیش کی گئی نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 پر کولکاتا میں الجبر اکاڈمی کی جانب سے مذاکرہ کیا گیا جس پر اسکالرس نے اس پالیسی کے اثرات اور ان خامیوں پر تبادلہ خیال کیا۔