مغربی بنگال میں اردو اور بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کی مجموعی آبادی 30 فیصد کے قریب ہے۔ سنہ 2008 میں جب بنگال کے مسلمانوں کی معاشی اور تعلیمی صورت حال پر سچر کمیٹی کی رپورٹ آئی تو مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر پائی گئی۔ جس کے بعد اس وقت کی بایاں محاذ حکومت کی جانب سے مسلمانوں کی معاشی و تعلیمی ترقی کے لیے چند ایک اقدامات بھی کیے جس کے نتیجے عالیہ یونیورسٹی کا قیام اور تعلیمی و معاشی طور پر پسماندہ مسلمانوں کو او بی سی میں شامل کیا گیا۔ پسماندہ مسلمانوں جن کی حالت بہت خراب تھی ان کو 'او بی سی اے' اور جن کی حالت قدرے بہتر تھی ان کو او بی سی بی میں شامل کیا گیا۔ او بی سی اے میں 90 فیصد مسلم اور 10 فیصد کے قریب ہندو پسماندہ طبقہ شامل ہے۔ جبکہ او بی سی بی میں مسلمانوں کی تعداد کم ہے۔
لیکن جب او بی سی کے تحت ریاست کے مسلمانوں Muslim in Bengal Facing Biased Treatment کو سرکاری نوکریوں اور اعلی تعلیمی اداروں رعایت حاصل کرنے کی باری آئی تو ان کو یہ سہولیات دینے سے انکار کیا گیا۔ جس کے خلاف احتجاج بھی ہوئے۔
حال ہی میں قاضی نذرل یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے داخلے میں او بی سی اے کی سیٹ امیدوار ہونے کے بعد بھی داخلہ نہیں دیا گیا۔ جبکہ اس سلسلے میں چہار جانب سے احتجاج اور یونیورسٹی پر تنقید ہونے لگی تو یونیورسٹی نے تصحیح کرتے ہوئے او بی سی اے کے امیدوار کو داخلہ دیا۔
اسی طرح بردوان یونیورسٹی اور چند روز قبل کلیانی یونیورسٹی میں بھی مختلف سبجیکٹ میں پی ایچ ڈی میرٹ داخلے کے لیے دیئے گئے سیٹ میں 10 فیصد او بی سی اے کے لیے مختص کی گئی تھی۔ لیکن او بی سی اے کے تحت تمام سیٹوں کو امیدوار ہونے کے باوجود خالی رکھا گیا جس کے خلاف احتجاج ہوا اور ملی تنظیموں کی جانب سے یونیورسٹی کے وی سی کو شکایت بھی کی گئی جس کے بعد او بی سی اے امیدواروں کو فہرست میں شامل کیا گیا۔
مغربی بنگال پبلک سروس کمیشن کی جانب سے بھی مسلمانوں کو اس طرح کے تعصب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت سنٹ زیوررس کالج کے پروفیسر ڈاکٹر ربیع الاسلام نے کہاکہ اعلی تعلیمی اداروں میں اس طرح کے رجحانات ہمیشہ سے پائے جاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں West Bengal Muslims Facing Biasedness کہ اس طرح کے کئی واقعات کے وہ خود گواہ ہیں۔'
انہوں نے کہاکہ' بہت دکھ کی بات ہے کہ اعلی تعلیمی اداروں میں پڑھے لکھے لوگ بھی اس طرح کے تعصب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ کورونا وبا سے پہلے ڈیوڈ ہئیر ٹیچرز ٹریننگ کالج میں ایم ایڈ میں داخلے میں کئی لوگوں نے بتایا کہ یہاں او بی سی اے کے تحت داخلہ نہیں دیا جا رہا ہے جس کے بعد ہم خود وہاں گئے تو یونیورسٹی ریجسٹرار اور وی سی بات کی۔ انہوں نے کہاکہ او بی سی اے کے لیے بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ میں نے سوال کیا کہ پانچ او بی سی اے سیٹ کے لیے الگ سے بنیادی ڈھانچے کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے۔ میں نے ہی جہاں سے تعلیم حاصل کی میرے استاد کو کسی نے کہاکہ آپ نے ایک مسلم طالب علم کو کیوں پی ایچ ڈی میں لے لیا۔ انہوں نے کہاکہ بنگال میں بھی ہندوتوا سوچ ہے لیکن یہاں چھپے ہوئے انداز میں ہے۔ یہاں شمالی بھارت کی طرح جارحانہ طور پر نہیں ہے۔'
جادب پور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عبد المتین نے بتایا کہ جب سچر کمیٹی کی رپورٹ آئی تھی تو بنگال کے مسلمانوں کی حالت کا سچ سب کے سامنے آیا تھا۔ اس رپورٹ کو آئے دس برس سے زیادہ وقت ہو چکا ہے اس کے باوجود مسلمانوں کی حالت ریاست میں نہیں بدلی ہے۔ جو حقوق ہمیں دستور سے ملے ہیں وہ ہمیں ملے اس کی یقین دہانی کرانی چاہیے، لیکن وہ بھی ہمیں نہیں دیا جا رہا ہے۔'
انہوں نے کہاکہ' حال ہی میں باراسات یونیورسٹی، بردوان یونیورسٹی، قاضی نذرل یونیورسٹی، کلیانی یونیورسٹی ایسے بہت سے نام ہیں جہاں او بی سی اے ریزرویشن دینے کے معاملے میں تعصب کیا جاتا ہے۔ حکومت کے پاس کوئی ڈاٹا نہیں ہے کہ ان دس برسوں میں اقلیتی طبقہ کے کتنے لوگوں کی ملازمت ملی ہے۔ یونیورسٹیوں میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح سے ریسرچ پروگرام میں، ایم فل کے داخلہ میں اور یہاں تک کہ اسسٹنٹ پروفیسر کے تقرری میں بھی کس طرح سے not found suitable کر دیا جا رہا ہے۔'
حال ہی میں اس طرح کے کئی واقعات سامنے آئیں ہیں سرکاری فلاحی اسکیموں بھی اس طرح کے معاملے سامنے آ رہے ہیں۔ حال ہی میں مالدہ جہاں ندی کٹاؤ کا معاملہ اکثر ہوتا رہتا ہے گاؤں کے گاؤں ندی میں بہہ جاتے ہیں۔ حال ہی میں جب مالدہ کے ویشنوپور گاؤں کے متاثرین کو زمین کا پٹہ دینے کا اعلان کیا گیا تو 139 افراد کی فہرست میں ایک بھی مسلمان شامل نہیں تھا جبکہ 70 فیصد متاثرین مسلمان ہیں۔'
مزید پڑھیں: