ETV Bharat / state

ملی الامین کالج تاحال اقلیتی درجے سے محروم - ملی الامین کالج

بھارتی ریاست مغربی بنگال میں صرف ایک 'ملی الامین کالج' ہی حکومت کی بے حسی اور سوتیلے پن کا شکار نہیں ہے بلکہ کئی اردو میڈیم اسکول ایسے بھی ہیں جسے اساتذہ کی تقرری نہیں ہونے کی وجہ سے بند کر دیا گیا ہے۔

al amin college
author img

By

Published : Mar 9, 2019, 11:43 PM IST


ملی الامین کالج کا مقصد مسلم لڑکیوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے حصول میں آسانی فراہم کرنا تھا کیونکہ وسائل کی کمی کی وجہ سے مسلم لڑکیاں اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ جاتی تھی لہذا کالج کو اقلیتی درجہ دلانے کی کوششیں تیز تر کر دی گئی۔

متعلقہ ویڈیو

سنہ 2000 میں کالج کو کولکاتا یونیورسٹی سے منظوری مل گئی اور پھر لگاتار کوششوں کے بعد سنہ 2008 میں مرکزی اقلیتی کمیشن کی جانب سے اقلیتی درجہ حاصل ہوا اور اس وقت کی بایاں محاذ کی حکومت نے بھی اس کو منظوری دے دی۔

کالج میں سنہ 2012 میں اساتذہ کے درمیان ٹیچر انچارج بننے کے لیے آپس میں جگھڑا ہوگیا جس کے نتیجے میں کالج کے مجلس عاملہ کمیٹی کے صدر سلطان احمد نے تین اساتذہ بیشاکھی بنرجی، زرینہ زرین اور پروین کور کو معطل کر دیا جس کے بعد تینوں اساتذہ نے اپنی معطلی کو کولکاتا ہائی کورٹ میں چیلینج کیا اور عدالت میں دلیل پیش کی کہ جب ان کی تقرری سنہ 2000 میں ہوئی تھی تو اس وقت کالج کو اقلیتی درجہ حاصل نہیں تھا لہذا ان کو کالج کی بانی کمیٹی معطل نہیں کر سکتی ہے جس پر عدالت نے ریاستی حکومت سے کالج کے اقلیتی درجہ پر اپنا موقف پیش کرنے کی ہدایت دی۔

لہذا سنہ 2015 میں حکومت نے عدالت میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملی الامین کالج کو اقلیتی درجہ حاصل نہیں ہے جس کے بعد عدالت نے اساتذہ کی معطلی کو ختم کردیا۔

عدالت کے اس فیصلے کے خلاف ملی ایجوکیشنل کمیٹی نے کلکتہ ہائی کورٹ کی ڈویژن بینچ میں اپیل کی لیکن اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے سلطان احمد سے کیس واپس لینے اور تینوں اساتذہ کی معطلی کو ختم کرنے کی صورت میں کالج کے اقلیتی درجہ کو بحال کرنے کا وعدہ کیا لیکن تا حال کالج کو ریاستی حکومت نے اقلیتی درجہ نہیں دیا ہے اور کالج بند ہونے کے دہانے پر ہے۔

ایک ٹیچر کا کالج سے تبادلہ ہوگیا ہے اور ایک ترقی پاکر کولکاتا یونیورسٹی میں مقرر ہوگئی ہے۔ اب کالج میں صرف دو ٹیچر ہی رہ گئیں ہیں۔

اس درمیان کالج کی مجلس عاملہ اور کالج کی بانی کمیٹی کی آپسی رنجش کے بعد سنہ 2017 میں آن لائن داخلہ نظام نہ ہونے کی صورت میں ایک بھی داخلہ نہیں ہوا، سنہ 2018 میں بھی صرف 22 طلبا کا ہی داخلہ ہوا ہے اور وہ جنرل کالج کے زمرے میں تمام تر کوششوں کے باوجود بھی ریاستی حکومت کی جانب سے کالج کو اقلیتی درجہ نہیں مل پایا ہے۔

جبکہ بایاں محاذ حکومت نے اس کالج کو اقلیتی درجہ دیا تھا لیکن ممتا بنرجی کی حکومت نے کالج کو اس حیثیت سے محروم کر دیا۔


ملی الامین کالج کا مقصد مسلم لڑکیوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے حصول میں آسانی فراہم کرنا تھا کیونکہ وسائل کی کمی کی وجہ سے مسلم لڑکیاں اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ جاتی تھی لہذا کالج کو اقلیتی درجہ دلانے کی کوششیں تیز تر کر دی گئی۔

متعلقہ ویڈیو

سنہ 2000 میں کالج کو کولکاتا یونیورسٹی سے منظوری مل گئی اور پھر لگاتار کوششوں کے بعد سنہ 2008 میں مرکزی اقلیتی کمیشن کی جانب سے اقلیتی درجہ حاصل ہوا اور اس وقت کی بایاں محاذ کی حکومت نے بھی اس کو منظوری دے دی۔

کالج میں سنہ 2012 میں اساتذہ کے درمیان ٹیچر انچارج بننے کے لیے آپس میں جگھڑا ہوگیا جس کے نتیجے میں کالج کے مجلس عاملہ کمیٹی کے صدر سلطان احمد نے تین اساتذہ بیشاکھی بنرجی، زرینہ زرین اور پروین کور کو معطل کر دیا جس کے بعد تینوں اساتذہ نے اپنی معطلی کو کولکاتا ہائی کورٹ میں چیلینج کیا اور عدالت میں دلیل پیش کی کہ جب ان کی تقرری سنہ 2000 میں ہوئی تھی تو اس وقت کالج کو اقلیتی درجہ حاصل نہیں تھا لہذا ان کو کالج کی بانی کمیٹی معطل نہیں کر سکتی ہے جس پر عدالت نے ریاستی حکومت سے کالج کے اقلیتی درجہ پر اپنا موقف پیش کرنے کی ہدایت دی۔

لہذا سنہ 2015 میں حکومت نے عدالت میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملی الامین کالج کو اقلیتی درجہ حاصل نہیں ہے جس کے بعد عدالت نے اساتذہ کی معطلی کو ختم کردیا۔

عدالت کے اس فیصلے کے خلاف ملی ایجوکیشنل کمیٹی نے کلکتہ ہائی کورٹ کی ڈویژن بینچ میں اپیل کی لیکن اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے سلطان احمد سے کیس واپس لینے اور تینوں اساتذہ کی معطلی کو ختم کرنے کی صورت میں کالج کے اقلیتی درجہ کو بحال کرنے کا وعدہ کیا لیکن تا حال کالج کو ریاستی حکومت نے اقلیتی درجہ نہیں دیا ہے اور کالج بند ہونے کے دہانے پر ہے۔

ایک ٹیچر کا کالج سے تبادلہ ہوگیا ہے اور ایک ترقی پاکر کولکاتا یونیورسٹی میں مقرر ہوگئی ہے۔ اب کالج میں صرف دو ٹیچر ہی رہ گئیں ہیں۔

اس درمیان کالج کی مجلس عاملہ اور کالج کی بانی کمیٹی کی آپسی رنجش کے بعد سنہ 2017 میں آن لائن داخلہ نظام نہ ہونے کی صورت میں ایک بھی داخلہ نہیں ہوا، سنہ 2018 میں بھی صرف 22 طلبا کا ہی داخلہ ہوا ہے اور وہ جنرل کالج کے زمرے میں تمام تر کوششوں کے باوجود بھی ریاستی حکومت کی جانب سے کالج کو اقلیتی درجہ نہیں مل پایا ہے۔

جبکہ بایاں محاذ حکومت نے اس کالج کو اقلیتی درجہ دیا تھا لیکن ممتا بنرجی کی حکومت نے کالج کو اس حیثیت سے محروم کر دیا۔

Intro:بھارت کی ریاست مغربی بنگال جس کو ملک کی ثقافتی مرکز بھی کہا جاتا ہے اور یہاں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی موجود ہے غیر منقسم بنگال میں مسلمانوں کی بادی بنگال میں 50 فیصد سے بھی زیادہ تھی آزادی کے بعد جب بنگال کا ایک بڑ ا حصہ مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش کے قیام ساتھ ہی مغربی بنگال میں سیاسی اور سماجی پس منظر بالکل بدل گیا اور کبھی بنگال میں سیاسی اور معاشی طور پر طاقتور مسلمان مغربی بنگال میں اقلیت بن گئے جس کے بعد ان سیاسی حیثیت میں زوال آتا گیا. مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 30 فیصد ہے جن میں ایک بڑی تعداد بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کی ہے اور باقی وہ مسلمان جن تعلق بہار اور اتر پردیش سے ہے جن کی زبان اردو ہے چونکہ یہاں کی سرکاری زبان بنگلہ ہے اس لئے بنگلہ بنے والے مسلمانوں کی حالت اردو بولنے والے مسلمانوں کے بنسبت بہتر ہے. آزادی کے بعد سے بنگال میں اقتدار 1969 تک کانگریس کے پاس رہی اور 1969سے 2011 تک بایاں محاذ کے پاس اقتدار رہا ان برسوں میں اس ریاست میں خصوصی طور پر اردو بولنے والے مسلمانوں کی حالت بتدریج بگڑتی رہی اور حالات ایسے ہوگئے پوری ریاست میں ایک بھی مسلمانوں کا تعلیمی ادارہ نہیں تھا اور خصوصی طور پر مسلم لڑکیوں کے لئے اعلیٰ حصول تعلیم کے لئے کوئی ذریعہ نہیں تھا سرکاری کالجوں میں بہت کم مسلم لڑکیاں پہنچ پاتی تھی وسائل کی کمی اور مسلم علاقوں سے دور ان کالجوں تک ان کی پہ. چ مشکل تھی ایسے میں کولکاتا کے کشھ ذی شعور تعلیم یافتہ لوگوں نے مسلم لڑکیوں کی تعلیم کے حصول میں آسانی کے لئے مرکزی کولکاتا کا بنیا پوکھر کا علاقہ جو مسلم اکثریتی علاقہ ہے کا انتجاب کیا گیا اور ملی ایجوکیشنل کمیٹی کی تشکیل عمل میں لائی گئی اور 1974 میں کالج کی عمارت کے لئے زمین خریدی گئی اور 1977میں مولانا ابوالحسن علی ندوی نے کالج کی بنیاد رکھی لیکن فنڈ کی کمی کی وجہ سے کالج کی تعمیر کا سلسلہ رک گیا اور پھر 1986 میں مولانا صابر کی قیادت میں کالج کے قیام کی کوششیں تیز کی گئیں اور کولکاتا کے مسلمانوں نے اس کے لئے عطیہ دیا اور ایک ایک روپیہ جوڑ کر عمارت کے فنڈ اکٹھا کیا لیکن اس کے باوجود فنڈ میں کمی رہ گئی جس کے بعد بنگلور کی الامین مشن نے کالج کی مالی معاونت کی اس شرط پر کہ کالج کا نام ملی کالج سے ملی الامین کالج برائے خواتین کر دیا جائے 1992 میں کالج کی عمارت کھڑی ہوگئی اور جسٹس خواجہ محمد یوسف کو ایجوکیشنل کمیٹی کا سیکرٹری بنایا گیا اور کالج میں تعلیمی سلسلہ شروع ہوا.


Body:ملی الامین کالج کا مقصد مسلم لڑکیوں کے لئے اعلیٰ تعلیم کے حصول میں آسانی فراہم کرنا تھا کیونکہ وسائل کی کمی کی وجہ سے مسلم لڑکیاں اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ جاتی تھی اور اس وقت کوئی ادارہ ایسا نہیں جو سو فیصد مسلمانوں کے لئے لہزا کالج کو اقلیتی درجہ دلانے کی کوششیں تیز تر کر دی گئی 2000 میں کالج کو کلکتہ یونیورسٹی سے منظوری مل گئی اور پھر لگاتار کوششوں کے بعد 2008 میں مرکزی اقلیتی کمییش کی جانب سے اقلیتی درجہ حاصل ہوا اور اس وقت کی بایاں محاذ کی حکومت نے بھی اس کو منظوری دے دی. کالج میں 2012 میں اساتذہ کے درمیان ٹیچر انچارج بننے کے لئے آپس میں جگھڑا ہوگیا جس کے نتیجے میں کالج کے مجلس عاملہ کمیٹی کے صدر سلطان احمد نے تین اساتذہ بیشاکھی بنرجی، زرینہ زرین اور پروین کور کو معطل کر دیا جس کے بعد تینوں اساتذہ نے اپنی معطلی کو کلکتہ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور عدالت میں دلیل پیش کی کہ جب ان کی تقرریسال 2000 میں ہوئی تھی تو اس وقت کالج کو اقلیتی درجہ حاصل نہیں تھا لہزا ان کو کالج کی بانی کمیٹی معطل نہیں کر سکتی ہے جس پر عدالت نے نے ریاستی حکومت سے کالج کے اقلیتی درجہ پر اپنا موقف پیش کرنے کی ہدایت دی لہذا 2015 میں حکومت نے عدالت میں اپنا موقف رکھنے پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملی الامین کالج کو اقلیتی درجہ حاصل نہیں ہے جس کے بعد عدالت نے اساتذہ کی معطلی کو ختم کردیا عدالت کے اس فیصلے کے خلاف ملی ایجوکیشنل کمیٹی نے کلکتہ ہائی کورٹ کی ڈویژن بینچ میں اپیل کی لیکن اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے سلطان احمد سے کیس واپس لینے اور تینوں اساتذہ کی معطلی کو ختم کرے کی صورت میں کالج کے اقلیتی درجہ کو بحال کرنے کا وعدہ کیا لیکن تا حال کالج کو ریاستی حکومت نے اقلیتی درجہ نہیں دیا ہے اور کالج بند ہونے کے دہانے پر ہے ایک ٹیچر کا کالج سے تبادلہ ہوگیا ہے اور ایک ترقی پاکر کلکتہ یونیورسٹی مقرر ہوگئی ہے اب کالج میں صرف دو ٹیچر ہی رہ گئیں ہیں اسی درمیان کالج کی مجلس عاملہ اور کالج کی بانی کمیٹی کی آپسی رنجش کے 2017 میں آن لائن داخلہ نظام نہ ہونے کی صورت میں ایک بھی داخلہ نہیں ہوا 2018 میں بھی صرف 22 طلباء کا ہی داخلہ ہوا ہے اور وہ جنرل کالج کے زمرے میں تمام تر کوششوں کے باوجود بھی ریاستی حکومت کی جانب سے کالج کو اقلیتی درجہ نہیں مل پایا ہے جبکہ بایاں محاذ حکومت نے اس کالج جو اقلیتی درجہ دیا تھا لیکن ممتا بنرجی کی حکومت نی کالج کو اس حیثیت سے محروم کر دیا اور متواتر کوششوں کے باوجود کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ہے. کالج کا اقلیتی درجہ بحال کرانے کے لئے کچھ لوگوں کی طرف سے ملی الامین کالج بچائو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس کمیٹی کے ایک رکن ڈاکٹر فواد حلیم سے ای ٹی وی بھارت نے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ 2014 میں ممتا بنرجی کی حکومت نے کالج کے اقلیتی درجہ بحال کرنے کے 20 دنوں بعد ایک نوٹیفکیشن جاری کر کہا کہ ملی الامین کالج اقلیتی ادارہ نہیں جس کو عدالت میں معطل اساتزہ نے پیش کر دیا جس کے بنا پر کلکتہ ہائی کورٹ نے ملی الامین کالج کے اقلیتی درجہ کو جتم کردیا اور کالج کی بانی کمیٹی ملی ایجوکیشنل کمیٹی نے اس کو ڈویژن بینچ میں چیلینج کیا لیکن اس معاملے کو کمیٹی کی طرف سے ڈھنگ سے پیش نہیں کیا گیا اور ڈویژن بینچ میں حلف نامہ دیکر معاملہ واپس لے لیا گیا جس مطلب یہ ہوتا ہے کہ کمیٹی سنگل بینچ کے فیصلے سے متفق ہے اور آج تک کالج جنرل کیٹگری کے طور پر چل رہا ہے. کالج کے اقلیتی درجہ بحال کرنے کے سلسلے میں ملی اتحاد پریشد کا ایک وفد نے ریاستی وزیر تعلیم سے ملاقات کی وفد میں شامل ملی اتحاد پریشد کے جنرل سیکرٹری عبدالعزیز نے ای ٹی وی کو بتایا کہ ریاستی وزیر تعلیم پارتھو چٹرجی نے وفد سے کہا کہ اگر ہم ملی الامین کالج کو دیں گے تو پھر اور بھی کالجوں کو دینا پڑےگا اور جب انکو کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے کہا کہ جن اداروں کو نیشنل کمیشن فار ایجوکیشن نے اقلیتی درجہ دیا تھا اس کو سپریم کورٹ نے بحال کیا ہے اور ملی الامین کالج بھی اسی زمرے میں آتی ہے اس پر بھی وہ مطمئن نہیں ہوئے پھر جب ان سے کہا گیا کہ آپ کی وزیر اعلیٰ نے سلطان احمد سے ٹیچروں معطلی جتم کرنے کی صورت میں اقلیی درجہ بحال کرنے کا وعدہ کیا تھا اس پر بھی وہ راضی نہیں ہوئے اور جب ان سے کہا گیا اب کالج کے پاس عدالت جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تو اس پر وزیر تعلیم پارتھو چٹرجی نے حیرت انگیز ہوکر کہا کہ اقلیتیں عدالت جائیں گی گویا وہ کہنا چاہ رہے تھی ان کی اتنی مجال تو ان سے کہا گیا کہ آپ سے کچھ نئی چیز نہیں مانگی جا رہی ہے بلکہ جو آپ نے چھینا وہ مانگا جا رہا ہے کالج کے پاس تو اقلیتی درجہ پہلے سے تھا آپ نے تو کالج کو اس سے محروم کیا ہے لیکن وہ ہماری دلیلوں سے مطمئن نہیں ہوئے اور ہمیں خالی ہاتھ لوٹنا پڑا جس حکومت سے اتنی امیدیں تھی اس نے ہی مسلمانوں کے ساتھ ایسا کیا ایک طرف تو ممتا حکومت مسلمانوں کی بڑی خیر خواہ بنتی ہے اور دوسری جانب مسلمانان ایک ہی ادارہ تھا جس کو یہ برداشت نہیں کر سکے اور اس کو اقلیتی جو اس کے پاس پہلے سے موجود تھا اس کو اس سے محروم کردیا. ملی الامین کالج بچائو کمیٹی کے ایک اور رکن محمد حسین رضوی نے ای ٹی کو بتایا کہ کالج کے اقلیتی درجہ کو ریاستی حکومت کے محکمہ تعلیم کی جانب سے ایک نوٹیفیکیشن 2015 کے دسمبر جاری کرکے کالج کے اقلیتی درجہ کو ختم کردیا گیا ملی الامین کالج ریاست کا واحد ادارہ تھا جس جو اقلیتی درجہ حاصل تھا جس کی تعمیر مسلمانوں نے بغیر کسی سرکاری مدد کے اپنے خون پسینے کی کمائی سے قائم کیا تھا اس کا ریاستی حکومت نے یہ حشر کر دیا ہے کہ آج یہ کالج بند ہونے کے قریب ہے کالج میں طلباء کی تعداد نہ کے برابر ہے کالج صرف دو اساتذہ پر چل رہا ہے ایک طرف ممتا حکومت ہوڑہ میں ہندی یونیورسٹی کی بنیاد رکھ رہی ہیں تو دوسری جانب مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کے ساتھ سوتیلا سلوک کر رہی ہیں.


Conclusion:ریاست مغربی بنگال میں صرف ایک ملی الامین کالج ہی حکومت کی بے حسی اور سوتیلے پن کا شکار نہیں بلکہ کئی اردو میڈیم اسکول ایسے بھی ہیں کہ اساتزہ کی تقرری نہ ہونے کی وجہ سے اسکول کو بند کردیا گیا ہے لیکن دوسری جانب ممتا بنرجی خود کو مسلمانوں کی خیر خواہ بتاتی اسی طرح بنگال کے مدرسوں کا بھی حال ہے اور حکومت کے خلاف آئے دن احتجاج ہو رہے ہیں.
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.