ملی الامین کالج کا مقصد مسلم لڑکیوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے حصول میں آسانی فراہم کرنا تھا کیونکہ وسائل کی کمی کی وجہ سے مسلم لڑکیاں اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ جاتی تھی لہذا کالج کو اقلیتی درجہ دلانے کی کوششیں تیز تر کر دی گئی۔
سنہ 2000 میں کالج کو کولکاتا یونیورسٹی سے منظوری مل گئی اور پھر لگاتار کوششوں کے بعد سنہ 2008 میں مرکزی اقلیتی کمیشن کی جانب سے اقلیتی درجہ حاصل ہوا اور اس وقت کی بایاں محاذ کی حکومت نے بھی اس کو منظوری دے دی۔
کالج میں سنہ 2012 میں اساتذہ کے درمیان ٹیچر انچارج بننے کے لیے آپس میں جگھڑا ہوگیا جس کے نتیجے میں کالج کے مجلس عاملہ کمیٹی کے صدر سلطان احمد نے تین اساتذہ بیشاکھی بنرجی، زرینہ زرین اور پروین کور کو معطل کر دیا جس کے بعد تینوں اساتذہ نے اپنی معطلی کو کولکاتا ہائی کورٹ میں چیلینج کیا اور عدالت میں دلیل پیش کی کہ جب ان کی تقرری سنہ 2000 میں ہوئی تھی تو اس وقت کالج کو اقلیتی درجہ حاصل نہیں تھا لہذا ان کو کالج کی بانی کمیٹی معطل نہیں کر سکتی ہے جس پر عدالت نے ریاستی حکومت سے کالج کے اقلیتی درجہ پر اپنا موقف پیش کرنے کی ہدایت دی۔
لہذا سنہ 2015 میں حکومت نے عدالت میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملی الامین کالج کو اقلیتی درجہ حاصل نہیں ہے جس کے بعد عدالت نے اساتذہ کی معطلی کو ختم کردیا۔
عدالت کے اس فیصلے کے خلاف ملی ایجوکیشنل کمیٹی نے کلکتہ ہائی کورٹ کی ڈویژن بینچ میں اپیل کی لیکن اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے سلطان احمد سے کیس واپس لینے اور تینوں اساتذہ کی معطلی کو ختم کرنے کی صورت میں کالج کے اقلیتی درجہ کو بحال کرنے کا وعدہ کیا لیکن تا حال کالج کو ریاستی حکومت نے اقلیتی درجہ نہیں دیا ہے اور کالج بند ہونے کے دہانے پر ہے۔
ایک ٹیچر کا کالج سے تبادلہ ہوگیا ہے اور ایک ترقی پاکر کولکاتا یونیورسٹی میں مقرر ہوگئی ہے۔ اب کالج میں صرف دو ٹیچر ہی رہ گئیں ہیں۔
اس درمیان کالج کی مجلس عاملہ اور کالج کی بانی کمیٹی کی آپسی رنجش کے بعد سنہ 2017 میں آن لائن داخلہ نظام نہ ہونے کی صورت میں ایک بھی داخلہ نہیں ہوا، سنہ 2018 میں بھی صرف 22 طلبا کا ہی داخلہ ہوا ہے اور وہ جنرل کالج کے زمرے میں تمام تر کوششوں کے باوجود بھی ریاستی حکومت کی جانب سے کالج کو اقلیتی درجہ نہیں مل پایا ہے۔
جبکہ بایاں محاذ حکومت نے اس کالج کو اقلیتی درجہ دیا تھا لیکن ممتا بنرجی کی حکومت نے کالج کو اس حیثیت سے محروم کر دیا۔