آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سابق نائب صدر مولانا کلب صادق کے انتقال پورا ملک سوگوار ہے۔
کولکاتا میں بھی ایک خانوادہ ہے، جس کا ڈاکٹر کلب صادق سے بہت گہرا تعلق رہا ہے۔وہ اس خبر سے غم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کولکاتا میں مقیم خانوادہ نواب واجد علی شاہ اور بیگم حضرات محل سے ڈاکٹر کلب صادق کا ایک خاص رشتہ ہے، جب بھی وہ کولکاتا آتے تھے تو ان کے گھر ان کی تشریف آوری ہوتی تھی۔
نواب واجد علی شاہ کے نبیرہ مرحوم ڈاکٹر کوکب قدر مرزا اور ڈاکٹر کلب صادق ایک ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریشرچ کیا تھا۔ اس کے علاوہ دونوں گھرانوں میں رشتہ داری بھی ہے۔ جب بھی کلب صادق کولکاتا آتے تو ڈاکٹر کوکب قدر مرزا کے گھر بھی تشریف لاتے تھے۔
ان کے انتقال پر ای ٹی وی سے ڈاکٹر کوکب قدر مرزا کے بڑے فرزند اور نبیرہ نواب واجد علی شاہ اور بیگم حضرت محل عرفان علی مرزا جو ڈاکٹر کلب صادق کے بہت قریب تھے۔
انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ عالم دین خطیب و آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر مولانا سید کلب صادق متعدد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ان کے بارے مختصر وقت میں کہنا ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا ان سے بچپن کا تعلق ہے، لکھنؤ میں ہم ایک دوسرے کے پڑوس میں تھے۔ ہمارا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا۔ اس کے علاوہ علی گڑھ میں ہمارے والد ڈاکٹر کوکب قدر سجاد علی مرزا اردو میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے اور ڈاکٹر کلب صادق عربی میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔
اس وقت بھی میرا علی گڑھ جانا ہوتا تھا تو ہم اکٹھے رہا کرتے تھے، ان سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ وہ ایک سیکولر اور رواداری کے دلدادہ آدمی تھے۔ ان کی شخصیت ایسی تھی جو جنہوں نے مذہب، فرقے اور ذات پات ماورا تھے۔
انہون نے کہا کہ ان کی طرح آدمی ملنا دشوار ہے۔ ان کی جیسی شخصیت کو آج کے زمانے میں ہر طبقے کو ضرورت ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے ان کی جیسی شخصیت آہستہ آہستہ ہمارے درمیان نہیں رہے یابہت کم رہ گئے ہیں۔
وہ بیک وقت چار زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ فارسی ان کی مادری زبان تھی، عربی میں انہوں نے پی ایچ ڈی کی تھی، دبستان لکھنؤ میں پلے بڑھے اور انگریزی میں بھی ان کو مہارت حاصل تھی۔
وہ محرم کے موقع پر یوروپ اور امریکہ کا دورہ کرتے تھے مجلس پڑھتے تھے۔ یوروپ اور امریکہ کے سنجیدہ اور باشعور سامعین کو بہت بہترین طریقے سے خطاب کرتے تھے اور روشن خیالات کو پیش کرتے تھے جو کوئی اور نہیں کر سکتا تھا۔
مولانا مرحوم اسلام کی بہترین ترجمانی کرتے تھے۔ ان کی طرح کا خطیب اب شیعہ کمیونٹی میں کوئی نہیں رہا ہے۔ وہ واحد عالم دین ہیں جو چاند دیکھنے کے سلسلے میں سائنٹفک طریقے کار کے حمایتی تھے۔ وہ نہایت ہی روشن خیال عالم دین تھے۔ ان کے گھرانے سے ہمارا خاص تعلق تھا، ان کے والد کلب حسین اور کلب عابد کا بھی ہمارے گھر آنا جانا تھا۔
مزید پڑھیں:
مولانا کلب صادق کی حیات و خدمات پر خصوصی رپورٹ
ہمیں ان کی خدمت کرنے کا موقع ملا۔ وہ دبستان لکھنؤ کے ان آخری چراغوں میں سے ہیں جو آہستہ آہستہ گل ہوتے جا رہے ہیں۔ان جیسے لوگوں کے لئے ہمارے نانا نے ایک شعر کہا تھا جو ان پر صادق آتا ہے۔
علم و تہذیب ادب کی گود کے پالے تھے
وہ لکھنؤ جن سے بنا وہ لکھنؤ والے تھے وہ