کولکاتا: مغربی بنگال کے کچھ علاقوں میں اردو بولنے والوں کی کافی تعداد موجود ہیں، کولکاتا شہر کے بعد سب سے بڑی آبادی آسنسول اور رانی گنج میں موجود ہے۔ یہاں کے کئی کالجوں میں اردو کا شعبہ موجود ہے اور بڑی تعداد میں اردو آنرس کرنے والے طلباء کی تعداد موجود ہے۔ رانی گنج کالج گرلس کالج میں شعبہ اردو کی جانب سے مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے اشتراک سے اردو افسانے میں تانیثی رجحانات کے موضوع پر دو روزہ قومی سمینار کا انعقاد کیا گیا۔ Literary Seminar In West Bengal
اردو افسانے میں تانیثی رجحانات کے موضوع پر کئی مقالے پیش کیے گئے۔ کالج کی پرنسپل چھبی دے نے اردو میں مہمانوں کا استقبال کرکے سب کو حیران کر دیا۔ دہلی یونیورسٹی کی صدر شعبہ اردو نجمہ رحمانی نے کلیدی خطبہ پیش کیا، جب کہ بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی بہار کے پروفیسر توقیر عالم نے اظہار خیال کیا۔ اردو افسانے میں تانیثی رجحانات پر مقالہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تو دوسری جانب اپنے کلیدی خطبے میں نجمہ رحمانی نے اردو ادب میں تانیثیت کی ابتدا اور اس کی موجودگی اور مختلف اردو کے بڑے افسانہ نگاروں کے تانیثیت کی موجودگی اور تانیثیت کے اصل معنی اور مفہوم پر پُرمغز تقریر سے سب کو محظوظ کیا۔
ادبی سمیناروں کا زبان و ادب کے فروغ میں کیا رول ہے اور ان سمیناروں سے کس طرح کا فائدہ ہوتا ہے۔ اس پر بات کرتے ہوئے نجمہ رحمانی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ اردو ادب میں تانیثیت کے مفہوم کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اب تک اس سلسلے میں لوگ گمراہی کے شکار بھی ہو جاتے ہیں، تانیثیت کے اصل مفہوم کو سمجھ نہیں پاتے۔ ہم اگر ہندوستان کے تانیثیت کو مغربی کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کریں گے، تو ہم بھٹک جائیں گے اگر ہمیں ہندوستان کے عورتوں کے مسائل کو سمجھنا ہے تو ہمیں ہندوستان کے تناظر میں اسے سمجھنا ہوگا۔'
انہوں نے کہا کہ دوسری جانب قوانین اور سرکاروں کا بھی اس میں رول ہوتا ہے۔ سماج کے رویے کا تعین کرتا ہے جیسے ہمارے پارلیمنٹ میں 33 فیصد عورتوں کی حصے داری کی بات ہے، لیکن آج تک اس کو قبول نہیں کیا گیا۔ ان ساری چیزوں کو سمجھنے کے لئے مسلسل مباحثے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ادبی سیمیناروں کی ضرورت اور اس کے مقاصد پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سمیناروں کے ذریعے ہم نئے سوال قائم کرتے ہیں اور نئے چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سمیناروں میں جو باتیں ہوتی ہیں ان کو سننے والے نئے پہلوؤں سے واقف ہوتے ہیں ان کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے ذہن میں نئے سوال اٹھتے ہیں جن کے وہ جواب تلاش کرتے ہیں، ممکن ہے کہ جب وہ یہاں سے جائیں گے تو ان سوالات کے جواب کی تلاش کریں گے۔ کچھ سوالات پوچھیں گے اور کچھ خود میں سوالات پیدا کریں گے تو سمیناروں کی وجہ سے یہ سلسلہ قائم رہتا ہے۔ سمینار حل نہیں دیتے بلکہ آپ کو بحث کے لیے اکساتے ہیں اور ایک نئی شروعات دیتے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ آج کا سمینار تانیثیت پر بحث و مباحثے کے لیے ایک اچھی شروعات ہے۔
واضح رہے کہ پہلے دن کے سمینار میں دو اجلاس میں آٹھ مقالے پڑھے گئے۔ پہلے اجلاس کی صدارت پروفیسر نجمہ رحمانی اور پروفیسر توقیر عالم نے کی جس میں ڈاکٹر جمشید احمد، ڈاکٹر مشکور معینی، ڈاکٹر صوفی ظفر شاید اختر اور ڈاکٹر صوفیہ شیرین نے مقالہ پیش کیا، جبکہ دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر عمر غزالی اور پروفیسر توقیر عالم نے کی دوسرے اجلاس میں بھی چار مقالے پڑھے گئے، جس میں ڈاکٹر فرزانہ شاہین، ڈاکٹر شفقت کمال آفاق حیدر اور آفتاب عالم نے مقالہ پیش کیا۔ دونوں اجلاس میں نظامت کے فرائض رانی گنج گرلس کالج کے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر فاروق اعظم انجام دیا اور اظہار تشکر اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سنور حسین نے کیا۔
Seminar on the Services of Hakim Ajmal Khan: حکیم اجمل خان کی ادبی خدمات پر سیمینار کا انعقاد