کورونا وائرس کے سبب ملک بھر میں عائد لاک ڈاؤن کے خاتمے کے کئی ماہ گزر جانے کے باوجود بھی معیشت پٹری پر واپس لوٹ نہیں پائی ہے۔
ملک کی ابتر معیشت کے درمیان پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہونے کا سلسلہ جاری ہے جس کا بازاروں پر برا اثر پڑنے لگا ہے۔
پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہونے کے سبب بازاروں میں ضروری اشیاء کی قیمتیں بھی آسمان چھونے لگی ہے۔
ایک طرف پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ اور دوسری جانب بازاروں میں روزمرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والی ضروری اشیاء عام لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہے۔
عام لوگوں کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے سبب بے روزگاری کے ساتھ ساتھ مہنگائی بھی بڑھی ہے۔ اس کے سبب عام آدمی کا بجٹ بگڑ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کے سبب روزمرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والی اشیاء کی قیمتوں میں آگ لگ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دو مہینہ قبل پیاز کی قیمتیں آسمان چھو رہی تھی۔ اس کے بعد اس میں کمی آئی تھی لیکن ایک بار پھر پیاز کی قیمتیں پچاس روپے سے زائد ہو گئی ہے۔
خاتون کا کہنا ہے کہ حالات بہت خراب ہیں.یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا خریدیں اور کیا کھائیں۔ مہنگائی کے سبب بجٹ نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی ہے۔
دوسری جانب سبزی فروشوں کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے سبب کاروبار مشکل ہو گیا ہے۔ منڈی میں جو چیزیں کم قیمتوں پر آسانی سے مل جاتی تھی اب اس کے زیادہ قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔
دکانداروں کا کہنا ہے کہ منڈی سے زیادہ قیمت میں سبزیاں خریدنی پڑ رہی ہے اس لئے بازاروں میں اسے زیادہ قیمت میں فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خریدار اب جھگڑے پر اتر آئے ہیں۔ لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ہم بھی مجبور ہیں. لیکن ہماری مجبوری سمجھنے والا کوئی نہیں ہے۔
حالانکہ ریاستی حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ایک ایک روپے کم کرنے کا اعلان کر چکی ہے لیکن اس کے باوجود مہنگائی پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔
ریاستی حکومت نے بازاروں میں روزمرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والی چیزوں کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے ٹاسک فورس تشکیل دے چکی ہے اس کے باوجود مہنگائی کو کنٹرول نہیں کیا جا سکا ہے۔