مغربی بنگال کے تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں پسماندہ طبقات کے لئے تحفظات دیئے گئے ہیں، لیکن اس کے باوجود کئی بار کچھ معاملوں میں ان پسماندہ طبقات کو نظر انداز کرنے کا معاملہ سامنے آتا رہتا ہے۔
خصوصی طور او بی سی سے تعلق رکھنے والے طبقے اس کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ 2011 کے بعد مغربی بنگال میں او بی سی کے زمرے میں ترمیم کرکے کچھ اور طبقات کو شامل کیا گیا تھا۔ بنگال میں او بی سی۔ اے اور او بی سی۔ بی دو کیٹگری ہے۔ او بی سی۔ اے میں مسلمانوں کو خاص طور پر شامل کیا گیا ہے۔ ریاست مغربی بنگال کے آسنسول میں موجود قاضی نذرل یونیورسٹی جس کا قیام چند برسوں قبل عمل میں آیا تھا۔ چند روز قبل یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں پی ایچ ڈی میں داخلے کو لیکر تنازعہ سامنے آیا ہے، جس میں او بی سی امیدواروں کو مبینہ طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ جس کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج ہونے کی وجہ سے او بی سی امیدواروں کو میرٹ لسٹ میں شامل کرنا پڑا ہے۔
واضح رہے کہ قاضی نذرل یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں پی ایچ ڈی کی آٹھ سیٹوں کے لئے داخلہ ٹسٹ اور وائیوا کے لیے عرضیاں طلب کی گئی تھیں۔ آٹھ سیٹوں میں دو سیٹیں او بی سی۔ اے اور او بی سی۔ بی مختص کی گئی تھیں، جس کے لئے 50 امیدواروں نے عرضی دی تھی۔ ان 50 امیدواروں میں صرف 6 امیدوار ہی نیٹ اور جے آر ایف نہیں تھے لیکن ان چھ امیدواروں نے داخلہ ٹسٹ پاس کیا ہے۔
لیکن جب داخلے کے میرٹ لسٹ جاری کی گئی تو او بی سی کی دو سیٹوں کی جگہ خالی رکھی گئیں تھی اور اس میں ریمارکس دیا گیا تھا کہ کسی بھی امیدوار کو موضوع نہیں پایا گیا ہے۔ جس کے بعد سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر ہنگامہ برپا ہوگیا اور یونیورسٹی پر او بی سی طبقے کے ساتھ بھید بھاؤ کرنے کا الزام بھی لگایا جانے لگا۔
مزید پڑھیں:
کلکتہ یونیورسٹی شعبہ اردو کے ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر تعلیمی سرگرمیاں جاری
جس کے بعد یونیورسٹی نے ترمیم شدہ میرٹ لسٹ آج جاری کی ہے۔ جس میں او بی سی۔ اے اور او بی سی۔ بی کے زمرے میں دو امیدوار فیضان اختر کو او بی سی۔ اے اور سوما شری شیل کو او بی سی۔ بی کیٹگری میں داخلہ کے لئے موضوع قرار دیا گیا ہے۔