دراصل 20 ویں صدی کے اختتام تک اردو اکیڈمی کے مخالف جانب ڈائمنڈ ہوٹل ہوا کرتا تھا جہاں اردو زبان سے وابستہ ہر نسل کے افراد وہاں جمع ہوتے تھے چائے کے لطف کے ساتھ مختلف امور پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ اس ہوٹل کابنگال میں اردو زبان کے فروغ میں اہم کردار رہا ہے تاہم اقتصادی مسائل اور بدلتے ترجیحات کی وجہ سے یہ ہوٹل بند ہوگیا اس کے بعد سے ہی کلکتہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں ادیب و شعرا بیٹھ سکتے تھے۔ آج اکیڈمی نے اسی روایت کو آگے بڑھانے کےلئے یہ قدم اٹھایا ہے ۔
اس موقع پر ممبر پارلیمنٹ سدیپ بندو پادھیائے نے کہا کہ بنگال اردو اکیڈمی سے ان کا رشتہ کافی قدیم ہے۔ اکیڈمی کے قیام سے لے کراس کو فعال بنانے کےلیے میں نے اسمبلی میں متعدد مرتبہ آوازیں بلند کی ہیں۔ اکیڈمی کا مولانا آزاد ہال کی تعمیر کےلیے میں نے اپنے ایم پی فنڈ سے بجٹ دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ممتا بنرجی کی حکومت ریاست کے تمام افراد کو ساتھ لے کر ترقی میں یقین رکھتی ہے۔کوئی بھی طبقہ یہ شکایت نہیں کرسکتا ہے انہیں ممتا حکومت نے نظرانداز کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کے حالات خراب ہیں،سیکولر روایات اور امن کے فضا کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ ان حالات میں ممتا بنرجی کی قیادت والی حکومت کی سخت ضرورت ہے۔ ممتا بنرجی ہی فرقہ پرست قوتوں کو شکست دے سکتی ہے۔
اس موقع پر بنگال اردو اکیڈمی کے وائس چیرمین ندیم الحق نے کہا کہ بنگال اردو اکیڈمی ریاست میں اردو زبان و ادب کو فروغ دینے کے ساتھ اادبی ماحول قائم کرنے کی کوشش کررہی ہے اور ڈائمنڈ کارنر کا افتتاح اسی کوشش کا حصہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہاں ادبا وشعرائ بیٹھ کر اردو زبان ادب کے فروغ اور دیگر اہم امور پر اظہار خیال کریں گے اور یہ کارنر ریاست میں ادبی فضا کی بحالی میں سنگ میل ثابت ہوگا۔
مغربی بنگال اردو اکیڈمی کی جانب سے اس موقع پر اسکالر شپ کی بھی تقسیم کی گئی۔ ریاست کے شعرا اور ادیبوں نے اکیڈمی کے اس قدم کی پذیرائی کی ہے۔ اس موقع پر ممبر اسمبلی نینا اپادھیائے، مقامی کونسلر ثنا احمد، اردو اکیڈمی سرگرم ممبر ایس حیدر اور دیگر افراد موجود تھے۔