مغربی بنگال میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے مد نظر سیاسی سرگرمیاں تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ بنگال کی سیاست میں مسلم ہمیشہ سے توجہ کا مرکز رہا ہے لیکن ممتا بنرجی کی دس سالہ دور اور بایاں محاذ کے دور میں ریاست کے مسلمانوں کی جس طرح سے ترقی ہونی چاہئے تھی نہیں ہوئی۔ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اس بات کو محسوس کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بنگال کی سیاست میں عباس صدیقی جیسے لوگ مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کو ان کا حق دلانے کے دعوے کے ساتھ سیاست میں قدم رکھ رہے ہیں۔
سنہ 2011 میں ممتا بنرجی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ریاست کی سیاسی صورت حال میں جس طرح کی تبدیلیاں رونما ہوئیں، اس طرح کے حالات بنگال میں کبھی نہیں تھے۔ بایاں محاذ کے دور میں جہاں بنگال میں بی جے پی کی کہیں موجودگی نہیں تھی، وہیں ممتا بنرجی کے دس سالہ حکومت میں بنگال میں بی جے پی کو جو تقویت ملی ہے وہ بے نظیر ہے۔
آئندہ چند ماہ بعد بنگال میں ہونے والے اسمبلی انتخابات پر پورے ملک کی نظریں مرکوز ہیں۔ بنگال کی سیاست میں مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کی نمائندگی نہ ہونے کا دعوی کرتے ہوئے نئی سیاسی جماعتیں سامنے آ رہی ہیں۔
بنگال کے معروف خانقاہ فر فرہ شریف کے پیر زادہ عباس صدیقی نے اپنی سیاسی جماعت تشکیل دی ہے۔ جس کے بعد سے بنگال کے سیاست میں طوفان مچا ہوا ہے۔ لوگ الگ الگ اس پر اپنی رائے قائم کر رہے ہیں، کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ مسلمانوں کے لئے نقصاندہ ثابت ہوگا تو کوئی کہہ رہا ہے کہ بنگال کے لوگوں نے فرقہ وارانہ سیاست کو کبھی قبول نہیں کیا ہے۔ بنگال کے لوگ فرقہ پرست طاقتوں کو صحیح جواب دینا جانتے ہیں۔ وہیں کچھ لوگ عباس صدیقی کے فیصلے کو صحیح قرار دے رہے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت نے اس سلسلے میں بنگال کے کئی سیاسی رہنماؤں اور سیاسی تجزیہ نگاروں سے بات کی کہ بنگال میں ہونے والے آئندہ اسمبلی انتخابات کے مد نظر سیاسی منظر نامہ میں کس طرح کی تبدیلی نظر آ سکتی ہے۔
اس پر سی پی آئی ایم کے رہنما ڈاکٹر فواد حلیم کا کہنا ہے کہ بنگال کے ووٹرس ذہین ہیں، بنگال میں کبھی یہ رجحان نہیں رہا ہے، چاہے وہ جس مذہب کے لوگ ہوں، ایک ساتھ ایک کسی جماعت کو یکطرفہ طور پر ووٹ کیا ہے۔ ہمیشہ بنگال کے لوگوں نے الگ الگ مدعوں پر ووٹ کرکے اپنی ذہانت کا ثبوت پیش کیا ہے۔ مختلف اضلاع میں مختلف سیاسی جماعتوں کو برتری حاصل رہی ہے۔ کہیں پر اقلیتوں نے کانگریس کو ووٹ کیا تو کسی ضلع میں بایاں محاذ کی حمایت کی ہے۔ بنگال میں اقلیتوں کے ووٹ ایک طرح سے دیکھا جائے تو نہ کبھی منتشر تھے اور نہ ہی یکطرفہ طور کسی ایک جماعت کو حمایت کی ہے اور اس بات کا ثبوت انتخابات کے نتائج ہیں۔
سنٹ زیوئیرس کالج کولکاتا میں ریاضی کے پروفیسر اور سیاسی تجزیہ نگار اور بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کے حالات پر نظر رکھنے والے پروفیسر ربیع الاسلام کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ چونکہ گذشتہ بایاں محاذ اور ممتا بنرجی کی دس سالہ حکومت میں ریاست کے اقلیتوں خصوصی طور پر مسلمانوں کو احساس ہوا ہے کہ ان کی جس طرح سے ترقی ہونی چاہئے تھی وہ نہیں ہوئی، ان کی بات کوئی نہیں کرتا۔ ان کے مدعے کوئی نہیں اٹھاتا، تو ایسے میں عباس صدیقی جیسے لوگ سامنے آ رہے ہیں۔ اس لئے اب اپنی لڑائی لڑنے کے لئے خود میدان میں آ رہے ہیں۔
جادب پور یونیورسٹی کے پروفیسر اور سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر عبدالمتین سے جب عباس صدیقی کے بنگال کی سیاست میں آنے اور ان پر ووٹوں کو منتشر کرنے کے حوالے سے سوال پوچھے گئے تو انہوں نے کہا کہ عام طور پر ایک بیانیہ قائم کر دیا گیا ہے، جب کوئی حاشیہ بردار چاہے وہ دلت ہو یا مسلمان اپنی بات رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں ماؤسٹ یا ایسے ہی کسی دوسری طرح کا نام دے دیا جاتا ہے۔ عباس صدیقی نے جو نئی سیاسی جماعت بنائی ہے اور تمام پسماندہ طبقات کے لئے کام کرنے کا اعلان کیا ہے، صرف مسلمانوں کی بات نہیں کی گئی ہے۔ لیکن بنگال کے خصوصی طور پر گاؤں دیہات میں رہنے والے مسلمانوں کی بات کوئی نہیں کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عباس صدیقی کی سیاست میں آمد سے بنیادی تبدیلی آئے گی۔ایک نئی سیاسی سوچ کی آمد ہے، جس سے پسماندہ طبقات اور مسلمانوں کو فائدہ ہوگا۔
بنگال کی سیاسی منظرنامہ میں آ رہی تبدیلی اور فرفرہ شریف کے پیر زادہ عباس صدیقی کی سیاسی جماعت کے متعلق جماعت اسلامی حلقہ مغربی بنگال خواتین شاخ کے صدر مولانا عبدالرفیق نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ اگر کوئی مسلمانوں کی بہتری کی بات کرتا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ کسی خاص طبقے کے مفاد کو لے کر اگر سیاست کر رہے ہیں تو آپ کو خیال رکھنا ہوگا کہ اس کا اثر کیا ہوگا۔ بنگال کے تناظر میں معاملہ یہ ہے کہ یہاں پر فرقہ وارانہ سیاست کو ہوا دی جا رہی ہے۔ لیکن فرقہ وارانہ سیاست کا جواب فرقہ وارانہ سیاست سے دینا صحیح نہیں ہے۔ اس طرح کی سیاست بنگال کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے۔
اس سلسلے میں مغربی بنگال کے سابق وزیر اور کانگریس کے رہنما عبد الستار نے کہا کہ آزادی کے بعد سے بنگال میں اس طرح کی سیاست کا کوئی اثر نہیں رہا ہے۔ ایک وقت میں بنگال میں مسلم لیگ کے ایم پی ہوا کرتے تھے لیکن بعد میں ان کا وجود نہیں رہا۔ جمہوریت میں سیاسی جماعتیں بنتی رہتی ہیں۔ سب کو سیاست میں آنے اور سیاسی جماعت بنانے کا حق ہے۔لیکن جس کی بات آج کل ہو رہی ہے، وہ مدعے اٹھا رہے ہیں اور جو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ ان کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔