مغربی بنگال کے شمالی 24 پرگنہ کے بھاٹ پاڑہ اور کانکی نارہ میں سالوں سال تک مل جل کر ایک ساتھ رہنے والی ہندو مسلم آبادی ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ دوسیاسی جماعتوں کے درمیان شروع ہونے والا جھڑپ مکمل طور پر فرقہ واریت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
تاہم کانکی نارہ کے نیا بازارکے قریب واقع 3 نمبر گلی جہاں زیادہ ترمسلمانوں کے گھر ہیں، چند مکانات ہی غیر مسلم کے ہیں،کے باشندوں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال قائم کرکے فرقہ واریت پھیلانے والوں کو آئینہ دکھایا ہے۔
گلی نمبر تین میں زیادہ ترمسلمانوں کی آبادی ہے۔جب کہ دو تین گھر ہی غیر مسلموں کا ہے۔19مئی کے بعد کشیدگی پھیلنے کے بعد جہاں مسلم محلوں سے غیرمسلم اور غیر مسلم محلوں سے مسلمان گھر چھوڑ کر محفوظ جگہ پناہ لے رہے تھے وہیں گلی نمبر 3جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے میں مسلم نوجوان اپنے غیر مسلم پڑوسیوں میں اعتماد بحال کررہے تھے اور یقین دلایا کہ انہیں کچھ نہیں ہوگااور دو تین غیر مسلم گھرانے گھر چھوڑ کر نہیں گئے۔
19مئی کو بھاٹ پاڑہ اسمبلی حلقے میں ضمنی انتخاب کیلئے ہوئے پولنگ کے بعد سے ہی یہاں ماحول کشیدہ ہیں۔ترنمول کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہونے والے ارجن سنگھ کی بارک پور لوک سبھا حلقے اور بھاٹ پارہ سے ان کے بیٹے کی جیت کے بعدتو بڑے پیمانے پر یہاں تشدد کے واقعات کا سلسلہ ہی دراز ہوگیا۔ جوٹ مل کے اس علاقے میں تشدد کی وجہ سے گزشتہ دو مہینے سے زائد عرصے تک یہاں تجارتی سرگرمیاں بند رہیں۔گرچہ اب دوکانیں اور بازار کھل گئے ہیں مگر اب بھی لوگوں میں خوف پایا جارہا ہے۔اس علاقے میں لوگوں کی جینا محال ہوگیا ہے۔سیکڑوں افراد بے گھر ہیں اور مقامی لوگ خوف زدہ ہیں۔
گلی کے رہنے والے محمد وارث کہتے ہیں کہ ’برسوں سے ہم یہاں پرایک ساتھ رہتے ہوئے آئے ہیں،عید کے موقع پر یہ ہمارے گھر آتے ہیں اور پوجا میں ہم ان کے یہاں جاتے ہیں۔کوئی بھی اس تعلق کو نہیں توڑ سکتا ہے۔ہنگامہ آرائی شروع ہونے کے بعد یہ لوگ گھرچھوڑ کر جارہے تھے مگر ہم لوگ ان میں اعتماد پیدا کیا اور انہیں گھر چھوڑ کر جانے نہیں دیا۔
گلی نمبر کی تین رہنے والی مایا دیوی کہتے ہیں کہ”گزشتہ دو مہینوں کے دوران دوسرے علاقوں میں کیا ہواہم نہیں جانتے ہیں،یہاں ہم لوگ دو تین گھر ہیں زیادہ تر مسلمانوں کے گھر ہیں اس کے باوجود یہاں امن کا ماحول تھا،ہم سب ایک ہیں اور کوئی بھی اس تعلق کو توڑنہیں سکتا ہے۔اسی محلہ کے رہنے سریش کہتے ہیں کہ کانکی نارہ میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان سیاسی جماعتوں نے تفرقہ پیدا کیا ہے اور یہ ووٹ کی سیاست ہے۔
خیال رہے کہ وزیرا علیٰ ممتا بنرجی نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ اگر بی جے پی بنگال میں کامیابی حاصل کی تو پورے بنگال میں بھاٹ پارہ جیسے حالات پیدا کردیے جائیں گے۔دوسری بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ ہندؤں پر مسلسل حملے ہورہے ہیں اور حکومت کارروائی کرنے میں ناکام ہے۔تاہم وارث اور سریش کہتے ہیں کہ یہاں دوفرقوں کے درمیان لڑائی نہیں ہے بلکہ دوسیاسی جماعتوں کے درمیان برتری کی لڑائی ہے اورسیاسی فائدے کیلئے مقامی لوگوں کو ہندو اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔