کولکاتا:مرکزی حکومت نے نئی تختی پر لکھنے کے لیے ایک چھوٹا پیراگراف بھی بھیجا ہے۔ اس انگریزی عبارت کا بنگالی اور ہندی میں ترجمہ کیا جائے گا۔ یہ پیراگراف وشو بھارتی کے نئے پتھرپر تین زبانوں انگریزی، بنگالی اور ہندی میں لکھا جائے گا۔ اس طرح مرکز نے نئی تختیاں تیار کرنے کا حکم دیا ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ سے کہا گیا ہے کہ وہ ایک کمیٹی تشکیل دیں جو کہ انگریزی عبارت کا بقیہ دو زبانوں میں ترجمہ کریں گے اور تختیاں بنائیں گے۔ چھ رکنی کمیٹی میں یونیورسٹی کے چار شعبہ جات کے سربراہ اور دو ای سی ممبران شامل ہوں گے۔
مرکز کی طرف سے نئی تختی کے لیے بھیجے گئے اقتباس میں رابندر ناتھ ٹیگور کو وشو بھارتی کے بانی کے طورپر پیش کیا گیا ہے۔اس میں یونیورسٹی کی مختصر تفصیل دی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ یونیورسٹی 1901 میں دیہی بنگال میں قائم ہوئی تھی۔ ہندوستان کی قدیم ثقافت کے مطابق اس تعلیمی ادارے میں عالمگیر انسانیت کے اسباق پڑھائے جاتے تھے۔ 1921 میں وشو بھارتی ایک بین الاقوامی یونیورسٹی بن گئی۔ یہاں مشرقی اور مغربی خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اس یونیورسٹی میں رابندر ناتھ کا عالمی امن کا تصور قائم ہوا۔ تنوع میں اتحاد اور علم کی تلاش میں، وشو بھارتی کا پوری دنیا میں تعارف ہے
حال ہی میں، وشو بھارتی کو یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ مرکز کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ایک شناختی تختی نصب کی گئی تھی۔ جس میں سابق وائس چانسلر ودیوت چکرورتی اور وزیر اعظم نریندر مودی یونیورسٹی کے چانسلر تھے۔ لیکن بانی رابندر ناتھ کا نام کہیں نہیں تھا۔اس کے بعد سے ہی یہ تختی تنازع کا شکار ہوگئی۔
یہ بھی پڑھیں:Mohua Moitra ٹی ایم سی نے مہوا موئترا کو ندیا ضلع کے کرشنا نگر ضلع کا تنظیمی صدر مقرر کیا
ریاست کی حکمراں جماعت ترنمول کے رہنماؤں نے تختی کو لے کر وشو بھارتی کے وائس چانسلر کی سخت تنقید کی۔ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے بھی تنقید کی۔ممتا بنرجی نے پارٹی لیڈروں کو اس معاملے میں احتجاج کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ جب تک تختی ہٹانہیں دیا جاتا ہے تو احتجاج جاری رہنا چاہیے۔ بعد میں بی جے پی قیادت نے بھی رابندر ناتھ کا نام خارج کرنے پر تنقید کی۔ اس دوران وائس چانسلر کی مدت ختم ہو گئی۔ نئے عبوری وائس چانسلر نے یونیورسٹی کا چارج سنبھال لیا ہے۔ اس بار تختی تنازعہ میں مرکزی حکومت نے مداخلت کی ہے۔ یواین آئی