نادرہ جس کے شوہر کشمیر میں پھنسے ہوئے ہیں نے کہا کہ گزشتہ دس دنوں سے کوئی فون نہیں آیا ہے۔ اس گاؤں کے، محبوب، فیروز اور شمیم کے گھروالوں کو بھی ان کے رشتے داروں کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
کشمیر سے لوٹنے والوں نے کہا کہ بیشتر افراد کے پاس کھانا پکانے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔ایسے میں یہ سمجھ سے باہر ہے کہ کرفیو کے دوران یہ لوگ کس طریقے سے کھانا کھاتے ہوں گے۔
7اگست کو کشمیر میں ا چانک حالات تبدیل ہوگئے، کئی لوگ گھر لوٹ گئے اور کئی لوگوں کے پاس روپے نہیں ہونے کی وجہ لوٹ نہیں سکے۔ذاکر گزشتہ پانچ سالوں سے کشمیر میں کام کرتے ہیں، دو وقت کا کھانا کے ساتھ پانچ سو روپے یومیہ معاوضہ ملتا تھا۔کشمیر سے لوٹنے والے ایک شخص نے کہا کہ کشمیریوں نے ہماری مدد کی اور ایک چھوٹی کار فراہم کرکے ہمیں کشمیر سے نکلنے کا راستہ دیا۔
ذاکر نے کہا کہ جموں پہنچنے کے بعد بھی سخت جانچ سے گزرنا پڑا۔کئی کئی جگہ جانچ کیا گیا۔دہلی پہنچنے کے بعد ہی خوف کا ماحول ختم ہوا ہے۔سوموار کو ہی ذاکر اور اس کے دو ساتھی کشن گنج پہنچے ہیں۔مگر کشمیر اب تک ان کے ذہن و دماغ سے ختم نہیں ہوا ہے۔
ریاستی وزیر غلام ربانی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ریاستی حکومت کشمیر میں پھنسے بنگالی مزدوروں کو واپس لانے کیلئے کارروائی کرے گی اور ہر ایک شخص کو بنگال بحفاظت لایا جائے گا۔