کلکتہ کی ملی ادارے آج کل سیاسی اکھاڑہ بنے ہوئے ہیں۔ چاہے وہ محمڈن اسپورٹنگ کلب ہو یا یتیم اسلامیہ کلکتہ یا اسلامیہ ہسپتال۔ ان اداروں میں دو گروہوں کے درمیان لگاتار آپسی چپقلش جاری ہیں جن کے نتیجے میں ملت کے ان تاریخی اداروں کی رسوائی ہو رہی ہے۔
سنہ 2011 میں ریاست کے اقتدار میں تبدیلی کے ساتھ ہی یہ کھیل شروع ہوا تھا۔ کولکاتا کے ملی اداروں میں جس کی لاٹھی اس بھینس کے مصداق روایت رہی ہے کہ ان اداروں کے روح رواں ہوں گے جو حکومت کے درباری ہوں گے۔ لیکن اب یتیم خانہ اسلامیہ کلکتہ سے ایک منفرد طرح کا معاملہ سامنے آرہا ہے۔ جہاں ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے یتیم خانہ کی باگ ڈور سنبھالے کے لیے دست و گریباں ہیں۔ شاید یہ پہلی بار ہوا ہے کہ یتیم خانہ پر اقتدار حاصل کرنے کی جنگ عدالت پہنچی ہے۔
یتیم خانہ کی سابق صدر کا مبینہ طور پر استعفی دینا اور پھر جلد بازی میں نئے صدر کا انتخاب تنازع کا باعث بنا ہوا ہے۔ یتیم خانہ اسلامیہ کلکتہ کی مجلس عاملہ کی نصف سے زائد ارکان کی غیر موجودگی میں نئے صدر کا انتخاب کر لیا گیا اس، میٹنگ کے خلاف دوسرے گروہ نے عدالت عرضی داخل کی ہے۔ ہنگامہ آرائیوں اور عدالت میں میٹنگ کو چیلینج کرنے کے باوجود یتیم خانہ اسلامیہ کے موجودہ عہدے داروں کے ایک گروہ نے سابق سیکریٹری عبد المجید کو صدر منتخب کرلیا۔
واضح رہے کہ عبد المجید نے ضعف کے بنا پر سیکریڑی کے عہدے سے کنارہ کر لیا تھا۔ جبکہ کمیٹی کے ایک گروہ نے محض 24 گھنٹے کی نوٹس پر اس طرح کی اہم میٹنگ بلانے پر اعتراض کیا تھا۔ وہاٹس گروپ کے ذریعے تمام ارکان کو میٹنگ کی اطلاع دیا گیا۔ جس پر ایک گروہ نے میٹنگ کو چند دنوں تک ٹالنے کی بات کی تھی۔ یتیم خانہ کے موجودہ جنرل سیکریٹری عبدالقیوم انصاری کا کہنا ہے کہ یتیم خانہ کے دستور میں اس طرح کی ہنگامی میٹنگ بلانے کا اختیار دیا گیا ہے۔ انہوں نے سلطان احمد کے انتقال کے بعد ہونے والے ہنگامی میٹنگ کا حوالہ دیا لیکن اس میٹنگ پر کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا ۔اس پر ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اس وقت نصف سے زائد ارکان کی غیر موجودگی رہی اور میٹنگ کی قانون حیثیت کو بھی عدالت میں چیلینج کیا گیا ہے۔
موجودہ کمیٹی کی مدت صرف تین ماہ باقی ہے۔ تمام تنازعات کی وجہ یتیم خانہ اسلامیہ کلکتہ کے 6 سید عامر علی ایونیو والی عمارت کو سمجھا جا رہا ہے۔ جہاں سے یتیم بچوں کو دوسری جگہ منتقل کیا گیا ہے تاکہ عمارت بننے کے بعد بچوں کو واپس لایا جایے لیکن اب انتظامیہ کی طرف سے بچوں کو واپس لانے کی کوئی سعی نہیں ہو رہی ہے اور اس عمارت کو کمرشیل مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی بات ہو رہی ہے اور اس عمارت کی تعمیر کی ذمہ داری کس کو ملے ان باتوں پر تنازع کی بنیاد ہے۔'